مصطفی قتل کیس: ملزم ارمغان نے جعلسازی اور کرپٹو کرنسی کے کام کا اعتراف کرلیا

0 minutes, 0 seconds Read

کراچی کے علاقے ڈیفنس سے اغوا کے بعد قتل ہونے والے مصطفی عامر کیس میں اہم پیشرفت ہوئی ہے، ایف آئی اے سائبر کرائم نے مرکزی ملزم ارمغان سے تفتیش کی ابتدائی رپورٹ تیار کرلی۔

ابتدائی رپورٹ کے مطابق ملزم ارمغان نے کال سینٹر سے جعلسازی اور کرپٹو کرنسی کے کام کا اعتراف کرلیا، ایف آئی اے نے ابتدائی رپورٹ سائبر کرائم ہیڈ کوارٹر کو ارسال کردی۔

ذرائع کے مطابق رپورٹ میں پولیس تفتیش پر ایف آئی اے سائبر کرائم نے سوال اٹھادیے جبکہ ملزم ارمغان نے انکشاف کرتے ہوئے بتایا کہ گرفتاری کے وقت موبائل فونز اور لیپ ٹاپ پولیس نے ضبط کیے۔

ایف آئی اے رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ لیپ ٹاپ اور آئی فون آئی او کے مطابق ضبط نہیں ہوئے، ارمغان نے 120 لیپ ٹاپ کا ذکر کیا، پولیس نے 64 لیپ ٹاپ دکھائے، آئی فون میں ورچوئل کرنسی کا اکاؤنٹ موجود ہے، ڈیجیٹل ثبوت کے لیے آئی فون اور لیپ ٹاپ مسنگ ہے۔

ارمغان کے والد اور مقتول مصطفیٰ کی والدہ کو شامل تفتیش کرنے کیلئے خط لکھ دیا گیا

ملزم ارمغان نے 2019 سے اپنے تمام بینک اکاؤنٹس بند کردیے تھے، ارمغان اپنے ملازم عبد الرحیم کا اکاؤنٹ استعمال کر رہا تھا، ایف آئی اے نے ثبوتوں سے پولیس کی چھیڑ چھاڑ سے حکام کو آگاہ کردیا۔

کیس کا پس منظر

یاد رہے کہ ڈپٹی انسپکٹر جنرل (ڈی آئی جی) سی آئی اے مقدس حیدر نے 14 فروری کو پریس کانفرنس کرتے ہوئے بتایا تھا کہ مقتول مصطفیٰ عامر 6 جنوری کو ڈیفنس کے علاقے سے لاپتا ہوا تھا، مقتول کی والدہ نے اگلے روز بیٹے کی گمشدگی کا مقدمہ درج کروایا تھا۔

25 جنوری کو مصطفیٰ کی والدہ کو امریکی نمبر سے 2 کروڑ روپے تاوان کی کال موصول ہونے کے بعد مقدمے میں اغوا برائے تاوان کی دفعات شامل کی گئی تھیں اور مقدمہ اینٹی وائلنٹ کرائم سیل (اے وی سی سی) منتقل کیا گیا تھا۔

منشیات کے گندے دھندے کے بڑے کردار بے نقاب، منشیات کیس کے ملزم ساحر حسین نے اسپیشلائزڈ یونٹ کو سب بتا دیا

بعد ازاں، اے وی سی سی نے 9 فروری کو ڈیفنس میں واقع ملزم کی رہائشگاہ پر چھاپہ مارا تھا تاہم ملزم نے پولیس پر فائرنگ کردی تھی جس کے نتیجے میں ڈی ایس پی اے وی سی سی احسن ذوالفقار اور ان کا محافظ زخمی ہوگیا تھا۔

ملزم کو کئی گھنٹے کی کوششوں کے بعد گرفتار کیا گیا تھا، جس کے بعد پولیس نے جسمانی ریمانڈ لینے کے لیے گرفتار ملزم کو انسداد دہشت گردی کی عدالت میں پیش کیا تو جج نے ملزم کا ریمانڈ دینے کے بجائے اسے عدالتی ریمانڈ پر جیل بھیج دیا تھا، جس کے خلاف سندھ پولیس نے عدالت عالیہ میں اپیل دائر کی تھی۔

ملزم نے ابتدائی تفیش میں دعویٰ کیا تھا کہ اس نے مصطفیٰ عامر کو قتل کرنے کے بعد لاش ملیر کے علاقے میں پھینک دی تھی لیکن بعدازاں اپنے بیان سے منحرف ہوگیا تھا، بعدازاں اے وی سی سی اور سٹیزنز پولیس لائژن کمیٹی (سی پی ایل سی) اور وفاقی حساس ادارے کی مشترکہ کوششوں سے ملزم کے دوست شیراز کی گرفتاری عمل میں آئی تھی جس نے اعتراف کیا تھا کہ ارمغان نے اس کی ملی بھگت سے مصطفیٰ عامر کو 6 جنوری کو گھر میں تشدد کا نشانہ بناکر قتل کرنے کے بعد لاش اسی کی گاڑی میں حب لے جانے کے بعد نذرآتش کردی تھی۔

مصطفی عامر قتل کیس؛ ملزم ارمغان کے جسمانی ریمانڈ میں 7 دن کی توسیع، سماعت کا تحریری حکم نامہ جاری

ملزم شیراز کی نشاندہی کے بعد پولیس نے مقتول کی جلی ہوئی گاڑی حب سے برآمد کرلی تھی جبکہ حب پولیس مقتول کی لاش کو پہلے ہی برآمد کرکے رفاہی ادارے کے حوالے کرچکی تھی جسے امانتاً دفن کردیا گیا تھا، مصطفیٰ کی لاش ملنے کے بعد مقدمے میں قتل کی دفعات شامل کی گئی ہیں۔

تفتیشی افسران کے مطابق حب پولیس نے ڈی این اے نمونے لینے کے بعد لاش ایدھی کے حوالے کی تھی، گرفتار کیا گیا دوسرا ملزم شیراز ارمغان کے پاس کام کرتا تھا، قتل کے منصوبے اور لاش چھپانےکی منصوبہ بندی میں شیراز شامل تھا۔

کراچی پولیس کا کہنا ہے کہ مقتول مصطفیٰ کا اصل موبائل فون تاحال نہیں ملا ہے، ملزم ارمغان سے لڑکی کی تفصیلات، آلہ قتل اور موبائل فون کے حوالے سے مزید تفصیلات حاصل کی جائیں گی۔

مصطفیٰ قتل کیس کے مرکزی ملزم ارمغان سے متعلق نیا انکشاف سامنے آگیا

بعدازاں پولیس نے لاش کے پوسٹ مارٹم کے لیے جوڈیشل مجسٹریٹ کی عدالت میں قبر کشائی کی درخواست دی تھی جس پر گزشتہ روز عدالت نے قبر کشائی کا حکم جاری کردیا تھا۔

دریں اثنا، 15 فروری کو ڈان نیوز کی رپورٹ میں تفتیشی حکام کے حوالے سے دعویٰ کیا گیا تھا کہ مصطفیٰ اور ارمغان میں جھگڑے کی وجہ ایک لڑکی تھی جو 12 جنوری کو بیرون ملک چلی گئی تھی، لڑکی سے انٹرپول کے ذریعے رابطے کی کوشش کی جارہی ہے۔

تفتیشی حکام نے بتایا کہ ملزم ارمغان اور مقتول مصطفیٰ دونوں دوست تھے، لڑکی پر مصطفیٰ اور ارمغان میں جھگڑا نیو ایئر نائٹ پر شروع ہوا تھا، تلخ کلامی کے بعد ارمغان نے مصطفیٰ اور لڑکی کو مارنے کی دھمکی دی تھی۔

پولیس حکام نے بتایا کہ ارمغان نے 6 جنوری کو مصطفیٰ کو بلایا اور تشدد کا نشانہ بنایا، لڑکی 12 جنوری کو بیرون ملک چلی گئی جس سے انٹرپول کے ذریعے رابطہ کیا جارہا ہے، کیس کے لیے لڑکی کا بیان ضروری ہے۔

Similar Posts