آسٹریلیا، کینیڈا، نیوزی لینڈ، ناروے اور برطانیہ نے اسرائیل کے دو انتہائی دائیں بازو کے وزراء، اتمار بن گویر اور بیزلیل سموٹریچ پر فلسطینیوں کے خلاف تشدد اور انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کو ہوا دینے کے الزام میں باضابطہ پابندیاں عائد کر دی ہیں۔ پانچوں ممالک کے وزرائے خارجہ نے ایک مشترکہ بیان میں ان اقدامات کا اعلان کیا۔
بیان میں کہا گیا کہ اسرائیلی وزیر برائے قومی سلامتی اتمار بن گویر، جنہیں پہلے اسرائیل میں نسل پرستی پر اکسانے اور ایک ”دہشتگرد“ تنظیم کی حمایت پر مجرم قرار دیا جا چکا ہے، اور وزیر خزانہ بیزلیل سموٹریچ کے اثاثے منجمد کیے جائیں گے اور ان پر سفری پابندیاں عائد ہوں گی۔ دونوں وزراء مقبوضہ مغربی کنارے میں غیرقانونی اسرائیلی بستیوں میں رہائش پذیر ہیں اور فلسطینی علاقوں کے انضمام، آباد کاری کے پھیلاؤ اور فلسطینیوں کی جبری بے دخلی کے پرجوش حامی سمجھے جاتے ہیں۔
بیان میں مزید کہا گیا کہ ’یہ دونوں افراد انتہا پسند تشدد کو ہوا دینے اور فلسطینیوں کے انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کے مرتکب ہوئے ہیں، اس لیے اب وقت آ گیا ہے کہ ان کے خلاف کارروائی کی جائے۔‘
آسٹریلوی وزیر اعظم انتھونی البانیز نے کہا کہ ان کی حکومت اسرائیلی حکام سے رابطے میں ہے، لیکن اسرائیل کو بین الاقوامی قوانین کی پاسداری کرنا ہو گی۔ انہوں نے کہا کہ ’نیتن یاہو حکومت کے ان سخت گیر ارکان کے توسیع پسند بیانات بین الاقوامی اصولوں سے کھلی مخالفت ہیں۔‘
ادھر امریکی محکمہ خارجہ کی ترجمان ٹیمی بروس نے ان پابندیوں کو ”انتہائی غیر مفید“ قرار دیتے ہوئے کہا کہ ’ہم ایسے کسی اقدام پر تشویش کا شکار ہیں جو اسرائیل کو عالمی برادری سے مزید تنہا کرے۔‘
صحافیوں کی جانب سے جب امریکی اور اسرائیلی حکومت کی ناراضی کے بارے میں سوال کیا گیا تو آسٹریلوی وزیر اعظم البانیز نے اسے ”متوقع ردعمل“ قرار دیا اور کہا کہ آسٹریلیا غزہ میں انسانی بحران پر مسلسل تشویش کا اظہار کرتا رہا ہے۔
اسرائیلی وزیر خارجہ گدعون ساعر نے ان پابندیوں کو ”قابل مذمت“ قرار دیتے ہوئے کہا کہ ان کی حکومت اگلے ہفتے خصوصی اجلاس بلا کر ان پابندیوں پر ردعمل طے کرے گی۔
سموٹریچ نے ہیبرون میں ایک نئی غیر قانونی بستی کے افتتاح کے موقع پر کہا، ’برطانیہ پہلے بھی ہمیں اپنے وطن میں بسنے سے روک چکا ہے، لیکن اب ہم رکیں گے نہیں۔ ہم خدا کے حکم سے تعمیری عمل جاری رکھیں گے۔‘
بن گویر اور سموٹریچ کئی مرتبہ غزہ پر مکمل قبضے اور وہاں یہودی بستیوں کی دوبارہ تعمیر کا مطالبہ کر چکے ہیں۔ 2005 میں اسرائیل نے غزہ کی بستیوں کو خالی کر دیا تھا۔
برطانیہ، فرانس اور کینیڈا نے اسرائیل کو خبردار کیا ہے کہ اگر اس نے غزہ میں اپنی جارحیت اور امدادی پابندیاں جاری رکھیں تو ”ٹھوس اقدامات“ کیے جائیں گے۔ تینوں ممالک نے ایک بار پھر مسئلہ فلسطین کے حل کے لیے دو ریاستی حل کی حمایت کا اعادہ کیا۔
اسرائیلی وزیر اعظم بنیامین نیتن یاہو نے ان ممالک پر الزام لگایا ہے کہ وہ ”حماس کی مدد“ کرنا چاہتے ہیں اور ”تاریخ کے غلط سمت“ پر کھڑے ہیں۔
خیال رہے کہ غزہ پر اسرائیلی حملوں، جو اکتوبر 2023 میں شروع ہوئے، میں اب تک تقریباً 55,000 فلسطینی شہید ہو چکے ہیں، جن میں اکثریت خواتین اور بچوں کی ہے۔ اسرائیل نے علاقے پر سخت ناکہ بندی اور امدادی سامان کی رسد پر قدغن لگا رکھی ہے۔ اسرائیل اور امریکہ کی حمایت سے قائم کیے گئے ”غزہ ہیومینیٹرین فاؤنڈیشن“ کو انسانی امداد کے سیاسی استعمال اور انسانی اصولوں کی خلاف ورزی کے طور پر شدید تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔
27 مئی سے غزہ میں امداد کی تقسیم کے آغاز کے بعد اب تک کم از کم 130 فلسطینی اسرائیلی فوج کی فائرنگ سے شہید ہو چکے ہیں، جب کہ 1,000 سے زائد زخمی ہوئے ہیں۔
ادھر مقبوضہ مغربی کنارے میں بھی اسرائیلی فوج کی چھاپہ مار کارروائیاں اور فلسطینی بستیوں پر حملے تیز ہو گئے ہیں۔ منگل کو نابلس میں اسرائیلی فوج نے کئی گھنٹے طویل آپریشن کیا، جس میں 60 سے زائد افراد زخمی اور درجنوں کو گرفتار کر لیا گیا۔ الجزیرہ کی نامہ نگار نور عودہ کے مطابق نابلس کے پرانے شہر کو مکمل طور پر بند کر دیا گیا ہے، جہاں لوگ گھروں میں محصور ہیں اور طبی عملے کو بھی متاثرہ افراد تک پہنچنے میں شدید مشکلات کا سامنا ہے۔ تمام اسکول، سرکاری دفاتر اور بیکریاں بند کر دی گئی ہیں۔