چین میں ہیومینائیڈ روبوٹس کی مانگ میں غیر معمولی اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے جس کے باعث اس شعبے میں کام کرنے والی کمپنیاں باصلاحیت انجینئرز اور مصنوعی ذہانت کے ماہرین کو راغب کرنے کیلئے قومی اوسط سے تین گنا زیادہ تنخواہیں دے رہی ہیں۔ یہ صورت حال ملک میں بڑھتے ہوئے ٹیلنٹ بحران کی غمازی کرتی ہے جسے اب صنعت کے بڑے ادارے بھی تسلیم کر چکے ہیں۔
آن لائن ریکروٹمنٹ پلیٹ فارم ”ژاؤپِن“ کی جانب سے جاری کردہ ایک تازہ رپورٹ کے مطابق ہیومینائیڈ روبوٹ الگوردم انجینئرز کی اوسط ماہانہ تنخواہ 31,512 یوآن (تقریباً 12لاکھ 42 ہزار 444 پاکستانی روپے) تک پہنچ چکی ہے۔ پانچ سال سے زیادہ تجربہ رکھنے والے ماہرین کے لیے یہ تنخواہ 38,489 یوآن تک جا سکتی ہے۔
یہ تنخواہیں چین میں شہری علاقوں کی اوسط ماہانہ آمدن 10,058 یوآن سے تقریباً چار گنا زیادہ ہیں۔ اسی شعبے میں مکینیکل ڈیزائن انجینئرز کی تنخواہیں بھی خاصی بلند ہیں جو اوسطاً 22,264 یوآن بنتی ہیں۔
ہیومینائیڈ روبوٹکس کا شعبہ موجودہ اقتصادی دباؤ کے ماحول میں ایک روشن موقع کے طور پر ابھرا ہے، جہاں دیگر صنعتوں میں سست روی، کارپوریٹ آمدنی میں کمی، اور ملازمین کی بڑے پیمانے پر چھانٹی جاری ہے۔
سرکاری اعداد و شمار کے مطابق طلبا کو نکال کر نوجوانوں میں بے روزگاری کی شرح اپریل میں 15.8 فیصد ریکارڈ کی گئی، جو مارچ کے 16.5 فیصد کے مقابلے میں معمولی کمی ظاہر کرتی ہے۔ تاہم اس موسم گرما میں ریکارڈ تعداد میں گریجویٹس کے مارکیٹ میں آنے سے لیبر مارکیٹ پر مزید دباؤ بڑھنے کا امکان ہے۔