کیا امریکا ایران پر حملے کے لیے مشرقِ وسطیٰ میں موجود اپنے فوجی اڈوں کو استعمال کرے گا؟ خطے میں پچاس ہزار سے زائد امریکی فوجیوں کی تعیناتی اور کئی خفیہ و نمایاں بیسز کیا بڑا خطرہ بننے جا رہے ہیں؟
امریکی میڈیا کے مطابق امریکا ایران پر براہ راست حملے پر غور کر رہا ہے، تاہم یہ کارروائیاں امریکا کی سرزمین سے نہیں بلکہ مشرق وسطیٰ میں قائم امریکی فوجی اڈوں سے کی جائیں گی۔ ان اڈوں پر اس وقت 50 ہزار سے زائد امریکی فوجی تعینات ہیں۔
امریکی تھنک ٹینک کونسل آن فارن ریلیشنز کے مطابق امریکی مستقل اڈوں میں بحرین، مصر، عراق، اردن، کویت، قطر، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات شامل ہیں، باقی اڈے وقتی نوعیت، یا اسٹریٹجک مقاصد کے لیے استعمال ہوتے ہیں۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ امریکا ان بیسز سے ماضی میں بھی دشمن اہداف کو نشانہ بناتا رہا ہے، اور ان اڈوں کا فعال کردار کسی بھی ممکنہ حملے میں کلیدی ہوگا۔ آئیے ایک نظر ڈالتے ہیں ان اہم اڈوں پر:
بحرین – نیول سپورٹ ایکٹیویٹی
بحرین میں امریکی بحریہ کا اہم ترین اڈہ واقع ہے، جہاں سے امریکی نیوی پورے خطے میں کارروائیاں کر سکتی ہے۔ اس بیس کو امریکی مفادات کے دفاع کے لیے اسٹریٹیجک مرکز تصور کیا جاتا ہے۔
عراق – الاسد اور اربیل ایئر بیسز
عراق میں موجود الاسد اور اربیل ایئربیسز میں جدید ترین امریکی لڑاکا طیارے اور ڈرونز تعینات ہیں۔ یہاں امریکی فوجیوں کی تعداد 2,500 سے زائد ہے، جو کسی بھی حملے کی صورت میں فوری ایکشن لینے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
کویت – کیمپ عارف جان اور علی السلیم ایئر بیس
کویت میں کیمپ عارف جان ایک بڑے زمینی فوجی اڈے کے طور پر کام کر رہا ہے، جب کہ علی السلیم ایئر بیس میں لڑاکا طیاروں کے ساتھ ساتھ طویل فاصلے تک مار کرنے والے میزائل سسٹمز بھی نصب ہیں۔
قطر – العدید ایئر بیس
قطر میں واقع العدید ایئر بیس امریکا کی سب سے بڑی ایئر فورس بیسز میں سے ایک ہے، جہاں سے ایئر لفٹ، ایریل ری فیولنگ اور دیگر فضائی جنگی آپریشنز باآسانی کیے جا سکتے ہیں۔
شام – شمال مشرقی خطہ
شام میں خانہ جنگی کے دوران امریکی افواج کی بڑی تعداد تعینات رہی ہے، تاہم اب یہ تعداد ایک ہزار سے کم کر دی گئی ہے۔ تاہم خطے میں موجودگی تاحال برقرار ہے، جو ممکنہ آپریشنل استعمال کے لیے اہم ہو سکتی ہے۔
ماہرین کے مطابق اگر ایران پر حملہ کیا گیا تو امریکا براہ راست جنگ کے بجائے خطے میں پھیلے اپنے اسٹریٹجک اثاثوں کو بروئے کار لائے گا۔ ایسے میں ان ممالک کی سلامتی، داخلی سیاست، اور خطے میں کشیدگی کے پھیلاؤ کا خدشہ بھی موجود ہے۔