پیر کو ہونے والے قومی اسمبلی کے اجلاس میں وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے آئندہ مالی سال کے بجٹ پر بحث کو سمیٹتے ہوئے اہم اقتصادی پالیسیوں اور ٹیکس اصلاحات پر اظہار خیال کیا۔ وزیر خزانہ نے ایوان کو بتایا کہ حکومت نے آئندہ مالی سال کے لیے ایک متوازی، متوازن اور عوام دوست بجٹ تیار کیا ہے جس کا مقصد معیشت کو مستحکم کرنا، ٹیکس نظام کو جدید خطوط پر استوار کرنا اور عوامی مسائل کا حل فراہم کرنا ہے۔
محمد اورنگزیب نے کہا کہ حکومت ڈیجیٹلائزیشن کے ذریعے ٹیکس اصلاحات متعارف کرا رہی ہے جبکہ ٹیکس قوانین میں بہتری لانے پر بھی کام جاری ہے۔ انہوں نے کہا کہ تنخواہ دار طبقے پر ٹیکس کا بوجھ کم کیا گیا ہے اور 6 سے 12 لاکھ روپے سالانہ آمدن پر ٹیکس کی شرح کم کر کے صرف 1 فیصد کر دی گئی ہے، جبکہ 32 لاکھ روپے تک آمدن والے افراد کیلئے بھی ریلیف تجویز کیا گیا ہے۔
وزیر خزانہ نے بتایا کہ حکومت نے سولر پینلز پر جی ایس ٹی کی شرح 18 فیصد سے کم کر کے 10 فیصد کر دی ہے تاکہ قابل تجدید توانائی کو فروغ ملے، تاہم انہوں نے خبردار کیا کہ جو افراد سولر پینلز کی قیمتوں میں خود ساختہ اضافہ کر رہے ہیں، ان کے خلاف سخت کارروائی کی جائے گی۔
ان کا کہنا تھا کہ ’حکومت نے سولر پینلز پر جی ایس ٹی کی شرح پر کمی کی ہے، سولر پینلز کے کاروبار سے وابستہ افراد کا قیمتوں میں خود ساختہ اضافہ تشویشناک ہے، سولر پینلز از خود مہنگے کرنے والے افراد کو کارروائی کے بارے میں خبردار کرتا ہوں، حکومت سولر پینلز ازخود مہنگے کرنے والوں کے خلاف کارروائی کرے گی‘۔
انہوں نے کہا کہ ای کامرس پر بھی ٹیکس تجویز کیا گیا ہے، تاہم یہ ٹیکس صرف بڑے کاروبار پر ہوگا جبکہ چھوٹے آن لائن کاروبار پر معمولی شرح رکھی جائے گی۔ انہوں نے مزید بتایا کہ ایف بی آر کو ٹیکس فراڈ پر گرفتاری کے اختیارات محدود کر دیے گئے ہیں اور اب گرفتاری صرف تین مخصوص شرائط پوری ہونے پر ہی ممکن ہوگی۔
محمد اورنگزیب نے اعلان کیا کہ حکومت بینظیر ہنرمند پروگرام کو مکمل وسائل فراہم کرے گی تاکہ نوجوانوں کو باہنر بنایا جا سکے۔ انہوں نے بتایا کہ چھوٹے کسانوں کو 10 لاکھ روپے تک قرض دیا جائے گا جبکہ چھوٹے گھروں کے لیے 20 سالہ قرض اسکیم بھی متعارف کرائی جائے گی۔
وزیر خزانہ نے کہا کہ حکومت نے اخراجات کو کنٹرول میں رکھا ہے اور ماحولیاتی آلودگی سے تحفظ کے لیے اقدامات اٹھائے جا رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ کی تجاویز کو بجٹ میں شامل کیا گیا ہے تاکہ پارلیمانی مشاورت کے ساتھ عوامی مفادات کا تحفظ ممکن بنایا جا سکے۔