سپریم کورٹ میں نظرثانی کی درخواستیں منظور، تحریک انصاف مخصوص نشستوں سے محروم

0 minutes, 0 seconds Read

سپریم کورٹ کے آئینی بینچ نے مخصوص نشستوں سے متعلق نظرثانی درخواستیں منظور کرتے ہوئے 12 جولائی کا فیصلہ کالعدم قرار دے دیا اور پشاور ہائیکورٹ کا فیصلہ برقرار رکھا ہے، جس کے بعد پی ٹی آئی مخصوص نشستوں سے محروم ہوگئی اور یہ نشتیں حکومتی اتحاد کو منتقل ہوجائیں گی۔

سپریم کورٹ آف پاکستان میں مخصوص نشستوں سے متعلق نظرثانی درخواستوں پر سماعت ہوئی، سماعت آئینی بینچ کے 11 کے بجائے 10 رکنی بینچ نے کی، جس کی سربراہی جسٹس امین الدین خان نے کی۔

سپریم کورٹ میں آج کی سماعت میں اٹارنی جنرل کے دلائل مکمل ہونے کے بعد مخصوص نشستوں نظر ثانی کیس کی سماعت مکمل ہوگئی تھی۔

بینچ نے آج کی سماعت مکمل ہونے کے بعد فیصلہ محفوظ کیا، اس موقع پر جسٹس امین الدین خان نے کہاکہ کچھ دیر میں مختصر فیصلہ سنایا جائے گا۔

سپریم کورٹ نے وقفے کے بعد مختصر فیصلہ جاری کردیا، فیصلہ بینچ کے 7 ارکان نے اکثریت کی بنیاد پر سنایا، جس میں سربراہ جسٹس امین الدین، جسٹس نعیم اختر افغان، جسٹس مسرت ہلالی، جسٹس شاہد بلال حسن، جسٹس عامر فاروق، جسٹس ہاشم کاکڑ ،جسٹس علی باقر نجفی شامل ہیں۔

آئینی بینچ نے نظرثانی کی درخواستیں منظور کرتے ہوئے 12 جولائی کا سپریم کورٹ کا فیصلہ کالعدم قرار دے دیا اور پشاور ہائیکورٹ کی جانب سے سنی اتحاد کونسل کو مخصوص نشستیں نہ دینے کا فیصلہ برقرار رکھا۔

مختصر فیصلہ جسٹس امین الدین خان نے پڑھ کر سنایا، جس میں کہا گیا کہ تفصیلی وجوہات بعد میں جاری کی جائیں گی۔

12 جولائی کے فیصلے کے خلاف جتنی درخواستیں دائر ہوئی تھیں عدالت نے وہ ساری منظور کرلیں، فیصلے کے بعد پی ٹی آئی تمام نشستوں سے محروم ہوگئی، قومی اسمبلی کی 22 نشستیں اور صوبائی اسمبلی کی 55 نشستیں حکومتی اتحاد کو مل جائیں گی۔

جسٹس جمال مندوخل نے 39 نشستوں کی حد تک اپنے رائے برقرار رکھنے کا فیصلہ کیا۔ جسٹس محمد علی مظہر اور جسٹس حسن اظہر رضوی نے مشروط نظرثانی درخواستیں منظور کیں۔

جسٹس حسن اظہر رضوی اور جسٹس محمد علی مظہر نے لکھا کہ نشستوں کی حد تک معاملہ الیکشن کمیشن کو بھجواتے ہیں، الیکشن کمیشن تمام متعلقہ ریکارڈ دیکھ کر طے کرے کس کی کتنی مخصوص نشستیں بنتی ہیں۔

فیصلے میں بتایا گیا کہ جسٹس صلاح الدین پنہور نے بنچ سے علیحدگی اختیار کی، ابتدا میں 13رکنی آئینی بینچ تشکیل دیا گیا تھا، جسٹس عائشہ ملک اور جسٹس عقیل عباسی نے ابتدائی سماعت میں ہی ریویو درخواستیں خارج کر دی تھیں۔

جسٹس محمد علی مظہر اور جسٹس حسن اظہر رضوی نے الیکشن کمیشن کو کاغذات نامزدگی کا دوبارہ جائزہ لینے کا حکم دے دیا۔ جسٹس جمال مندوخیل، جسٹس محمد علی مظہر اور جسٹس حسن اظہرر ضوی نے فیصلے سے اختلاف کیا۔

سپریم کورٹ نے مخصوص نشستوں سے متعلق تحریری فیصلہ جاری کردیا

سپریم کورٹ کے آئینی بینچ نے مخصوص نشستوں سے متعلق تحریری فیصلہ جاری کردیا، فیصلے کے مطابق 12 جولائی 2024 کا فیصلہ کالعدم قرار دے دیا گیا جبکہ پشاور ہائیکورٹ کا فیصلہ بحال کر دیا گیا۔

سپریم کورٹ کے 13 رکنی نظرثانی بینچ نے مخصوص نشستوں کے حوالے سے 4 صفحات پر مشتمل مختصر تحریری حکم نامہ جاری کر دیا۔

فیصلے میں بتایا گیا ہے کہ جسٹس عائشہ ملک اور جسٹس عقیل عباسی نے پہلے ہی دن نظرثانی درخواستوں کو مسترد کر دیا تھا جبکہ جسٹس صلاح الدین پنہور نے بینچ سے علیحدگی اختیار کی۔

عدالتی فیصلے میں کہا گیا ہے کہ 7 ججز کی اکثریتی رائے سے تمام سول نظرثانی درخواستیں منظور کرلی گئی ہیں، اس فیصلے کی روشنی میں 12 جولائی 2024 کا اکثریتی فیصلہ کالعدم قرار دے دیا گیا ہے جبکہ پشاور ہائیکورٹ کا فیصلہ بحال کر دیا گیا ہے۔

فیصلے کے مطابق جسٹس جمال خان مندوخیل نے 41 نشستوں پر نظرثانی کا فیصلہ دیا تاہم 39 نشستوں پر ان کا پرانا حکم برقرار رکھا گیا ہے۔

دوسری جانب جسٹس محمد علی مظہر اور جسٹس حسن اظہر رضوی نے الیکشن کمیشن کو 80 امیدواروں کی نامزدگی کا ازسرنو جائزہ لینے کی ہدایت دی ہے، جس پر فیصلہ 15 دن میں کرنے کا کہا گیا ہے۔

یاد رہے کہ 12 جولائی 2024 کو سپریم کورٹ نے سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستوں کے کیس میں پشاور ہائیکورٹ اور الیکشن کمیشن کا فیصلہ کالعدم قرار دیتے ہوئے پاکستان تحریک انصاف کو مخصوص نشستوں کا حقدار قرار دیا تھا۔

اس سے قبل، 14 مارچ 2024 کو پشاور ہائیکورٹ کے 5 رکنی لارجر بنچ نے متفقہ طور پر سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستیں نہ ملنے کے خلاف درخواست کو مسترد کر دیا تھا۔

سماعت کرنے والا 11 رکنی بینچ ٹوٹ گیا

قبل ازیں عدالت عظمیٰ کے گیارہ رکنی بینچ میں شامل جسٹس صلاح الدین پنہور نے مخصوص نشستیں کیس کے بینچ سے علیحدگی اختیار کرلی۔ کیس کی آج ہونے والی سماعت جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں جاری تھی، تاہم سماعت کے آغاز ہی پر جسٹس صلاح الدین پنہور نے بینچ کا حصہ بننے سے معذرت کرتے ہوئے کہا کہ ان کی شمولیت پر اعتراض کیا گیا ہے۔

جسٹس صلاح الدین پنہور نے ریمارکس دیے کہ آپ سے میرا 2010 کا تعلق بھی ہے، فیصل صدیقی اور سلمان اکرم راجا جیسے وکلا نے ججز پر اعتماد کا اظہار کیا، لیکن جس انداز سے اعتراض کیا گیا، اس سے عدالت کے وقار پر سوال اٹھا، لہٰذا ادارے کی ساکھ کے تحفظ کے لیے بینچ سے الگ ہو رہا ہوں۔

انہوں نے واضح کیا کہ ان کا علیحدہ ہونا کسی اعتراض کے اعتراف کے طور پر نہ لیا جائے۔

عدالت میں موجود ایڈووکیٹ حامد خان نے جسٹس صلاح الدین پنہور کے فیصلے کو قابلِ ستائش قرار دیا، تاہم جسٹس امین الدین خان نے کہا کہ یہ ستائش کا معاملہ نہیں، یہ سب آپ کے کنڈکٹ کی وجہ سے ہوا ہے۔

جسٹس جمال مندوخیل نے بھی کہا کہ آپ کا طرزِ عمل اس ردعمل کی بنیاد ہے۔ ہم نے آپ کا لحاظ کرتے ہوئے آپ کو سنا، حالانکہ ایک ہی پارٹی سے 2 وکیل دلائل کے حقدار نہیں ہوتے، پھر بھی آپ کو بولنے کا موقع دیا۔

حامد خان نے مؤقف اختیار کیا کہ وہ اس کیس میں نظرثانی کی بنیاد پر دلائل دینے کا حق رکھتے ہیں،تاہم جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ آپ اس کیس میں دلائل دینے کے حقدار نہیں تھے۔

دوران سماعت جسٹس صلاح الدین پنہور نے مزید کہا کہ آپ کے دلائل سے میں ذاتی طور پر رنجیدہ ہوا، لیکن یہاں میری ذات کا معاملہ نہیں، ججز پر جانبداری کا الزام لگایا گیا جس سے تکلیف ہوئی۔ عوام میں یہ تاثر جانا کہ جج جانبدار ہے، درست نہیں۔

اس موقع پر کیس کی سماعت کو 10 منٹ کے لیے ملتوی کردیا گیا۔ جسٹس امین الدین خان نے کہا کہ بینچ 10 منٹ بعد دوبارہ آ کر سماعت کرے گا۔

سماعت کے لیے 10 رکن بینچ تشکیل

سپریم کورٹ میں مخصوص نشستوں سے متعلق نظرثانی درخواستوں پر سماعت دوبارہ ہوئی تو جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں 10رکنی آئینی بینچ نے سماعت کی۔

سماعت کا احوال

جسٹس امین الدین کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 10 رکنی آٸینی بینچ نے مخصوص نشستوں کے فیصلے کے خلاف نظرثانی درخواستوں پر سماعت کی۔ اس موقع پر مخدوم علی خان نے دلاٸل دیے۔

سماعت کا آغاز ہوا تو جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ جواب الجواب کی حد تک دلائل محدود رکھیں، جس پر وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ کوئی نئی بات نہیں کروں گا۔

جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ خواہش ہے کہ سپریم کورٹ کا پرانا نظام بحال ہونا چاہیئے، بہت ہوچکا ہے،

مخدوم علی خان نے کہا کہ مختصر حکم نامے میں رول 94 کو غیر آئینی نہیں کہا گیا، عدالت نے تفصیلی فیصلے میں ایسا کیا، مختصرحکم نامے سے متصادم تفصیلی فیصلہ برقرار نہیں رہ سکتا۔

جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ مختصر آرڈر میں ہم اتنا ہی کہتے ہیں وجوہات بعد میں دیں گے، شارٹ آرڈر تو بالکل ہی مختصر ہوتا ہے، یہ کیسے کہہ سکتے ہیں جو شارٹ آرڈر میں نہیں وہ تفصیلی میں نہ آئے، سب کچھ شارٹ آرڈر میں ہو تو تفصیلی کی ضرورت کیا ہے؟ جس پر وکیل نے کہا کہ جس چیز کو شارٹ آرڈر میں غیرقانونی نہیں کہا اسے تفصیلی میں کیسے کہہ سکتے؟۔

جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ تفصیلی فیصلے میں مختصر حکم نامے سے کہاں انحراف کیا گیا؟ شارٹ آرڈر کے حق میں ہم پچاس سو وجوہات لکھ سکتے ہیں، جو دلائل دیے گئے جواب الجواب میں انہی پر جواب دیا جائے، میں چاہتا ہوں سپریم کورٹ کا وہی وقار، عزت بحال ہو، جس کا جو دل چاہتا ہے کہہ جاتا ہے کوئی پکڑ دھکڑ نہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ ایس آئی سی بارے 13 ججز کا متفقہ فیصلہ تو وہ مان ہی رہے ہیں، نظرثانی درخواست میں ریلیف لینے کے لیے عاجز ہونا پڑتا ہے، جو چیز ہنس کر خوشی سے لے سکتے ہیں وہ لڑ کر نہیں لیا جاسکتا، کسی کی تضحیک کرکے کچھ بھی نہیں لیا جاسکتا۔

وکیل مخدوم علی خان نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ ان لوگوں نےایک ایسی جماعت میں شمولیت کی جسےمخصوص نشستیں نہیں مل سکتی تھیں، اگر سب آزاد امیدوار نئی جماعت بھی بنا لیں تو بنا سکتے ہیں، ایسی صورت میں بھی مگرانہیں مخصوص نشستیں نہیں مل سکتی، جس پر جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ آپ کہہ رہےمخصوص نشستوں کے لیے عام انتخابات میں کم ازکم ایک نشست جیتنا لازم ہے۔

جسٹس نعیم اختر افغان نے ریمارکس دیے کہ عدالتیں سماعت میں کسی فریق کی پارٹی نہیں بنتی، جو آپ نے پڑھا اس سے لگتا ہے کہ پی ٹی آٸی نے پوری قوم کو ہیجان میں مبتلا کر رکھا ہے، اصل غلطی پی ٹی آٸی کے وکیلوں کی ہیں جن کی ابھی اور تربیت کی ضرورت تھی۔

جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ میں نے یہ کہا کہ جنہوں نے غلطی کی پی ٹی آئی تحقیقات کروائے۔ جسٹس حسن اظہر رضوی نے کہا کہ پی ٹی آئی نے کبھی کیس میں فریق بننے کی درخواست نہیں کی۔

جسٹس علی باقر نجفی نے کہا کہ درخواست جو دائر ہوئی اس میں فریق بنانے کا لکھا ہوا ہے، کیا انتحابات سے متعلق مقدمات میں طریقہ کارضروری ہوتا ہے، مکمل انصاف کا اختیار اس کیس میں کیسے استعمال نہیں ہوسکتا، جس پر وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ طریقہ کار کسی بھی کام میں بہت ضروری ہوتا ہے،

جسٹس جمال خان مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ پشتوں کی ایک کہاوت ہے، جس میں ایک شخص نے کسی کو بیل کچھ روز کے لیے دیا، جب وہ شخص بیل واپس لینے گیا تو جس نے بیل لیا تھا اس نے بیل کو بھی اور مالک کو بھی گالیاں دی، اس وقت مالک بولا یہ میری غلطی ہے نہ بیل دیتا نہ آج گالیاں سنتا، یہ پی ٹی آئی والا معاملہ بھی ایسا ہی ہے، ہم نے وہ دے دیا جو مانگا ہی نہیں گیا تھا، پھر بھی ہمیں گالیاں پڑھ رہی ہیں۔

وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ عدالت نے جذبات میں نہیں قانون کے مطابق فیصلہ کرنا ہے، جس پر جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ میں نے اسٹاف کے ساتھ بیٹھ کر کاغذات نامزدگی دیکھے، کچھ لوگ غلط بیانی سے قوم کو گمراہ کرتے ہیں، ہم نے قوم کو گمراہ نہیں حقیقت بتانی ہے، ذاتی علم پر بطور گواہ آسکتا ہوں جج نہیں، پی ٹی آئی نے آزاد امیدواروں کو خود دھکا دیا کہ اس جماعت میں جائیں۔

وکیل مخدوم علی خان کے دلائل مکمل ہونے کے بعد اٹارنی جنرل روسٹرم پر آگئے اور کہا کہ جو چیزیں زیر بحث نہیں آئیں اس پر فیصلہ کیسے دیا گیا؟ اکثریتی فیصلے میں درخواست سے ہٹ کر فیصلہ دیا گیا، فیصلے کے مکمل انصاف کے پیرا گراف پر نظرثانی ہونی چاہیئے۔

اٹارنی جنرل نے رول 94 کو غیر آئینی قرار دینے کے خلاف دلائل دیتے ہوئے کہا کہ رول 94 کو کہیں چیلنج ہی نہیں کیا گیا تھا، کیس کے دوران کسی نے اس پر دلائل بھی نہیں دیے۔

جسٹس محمد علی مظہر نے استفسار کیا کہ کیا آپ یقین سے کہہ سکتے ہیں کسی نے اس پر دلائل نہیں دیے؟ جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ بالکل کسی نے نہیں کیا، ریکارڈنگ نکال کر دیکھ لیں، تفصیلی فیصلے میں رول 94 کی وضاحت کو کالعدم کیا گیا، مختصر حکم نامے میں رول 94 کا ذکر ہی نہیں تھا۔

جسٹس نعیم افغان اختر نے کہا کہ رول 94 پر میں نے فیصل صدیقی سے پوچھا بھی تھا، فیصل صدیقی نے کہا تھا ہم رول 94 کو چیلنج نہیں کررہے۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ عدالت کو نظرثانی میں رول 94 سے متعلق پیراگراف حذف کرنا ہوگا، الیکشن ایکٹ کا رول 94 اس کے نتیجے میں وضاحت سمیت بحال ہوگا۔

جسٹس جمال مندوخیل نے اٹارنی جنرل سے استفسار کیا کہ کیا کسی سیاسی جماعت کا آئینی حق صرف ایک رول سے چھینا جاسکتا ہے؟ جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ سیاسی جماعت کا وجود تو رہے گا مگر انٹرا پارٹی الیکشن نہ ہونے پر اس کے امیدوار آزاد ہوں گے۔

جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ یہ آپ کی تشریح ہے آئین یا قانون میں ایسا نہیں، انٹرا پارٹی الیکشن نہ ہونے پر صرف انتخابی نشان ہی ختم ہوتا ہے، جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ میری گزارش ہے کہ وہ پارٹی ٹکٹ بھی جاری نہیں کرسکتی۔

بعدازاں سپریم کورٹ میں مخصوص نشستوں پر نظرثانی سے متعلق کیس کی سماعت مکمل ہوگئی، جس کے بعد عدالت نے تمام فریقین کے دلائل مکمل ہونے پر نظرثانی درخواستوں پر فیصلہ محفوظ کرلیا۔

اٹارنی جنرل نے عدالت کی معاونت کی، جسٹس امین الدین کی سربراہی میں 10 رکنی لارجر بینچ نے کیس کا فیصلہ محفوظ کیا جبکہ مختصر فیصلہ کچھ دیر تک سنایا جائے گا۔

یاد رہے کہ 6 مئی 2025 سپریم کورٹ کے آئینی بینچ نے مخصوص نشستوں کے فیصلے پر نظر ثانی درخواستوں کو سماعت کے لیے منظور کرتے ہوئے فریقین کو نوٹسز جاری کردیے۔

تاہم، بینچ کے ارکان جسٹس عائشہ ملک اور جسٹس عقیل عباسی نے اختلاف کرتے ہوئے نظر ثانی درخواستوں کو ناقابل سماعت قرار دیا تھا۔

خیال رہے کہ 12 جولائی کو سپریم کورٹ نے سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستوں کے کیس میں پشاور ہائی کورٹ اور الیکشن کمیشن کا فیصلہ کالعدم قرار دیتے ہوئے پاکستان تحریک انصاف کو مخصوص نشستوں کا حقدار قرار دے دیا تھا۔

کیس کا پس منظر

6 مئی کو سپریم کورٹ نے 14 مارچ کے پشاور ہائی کورٹ کے فیصلے کے ساتھ ساتھ یکم مارچ کے الیکشن کمیشن آف پاکستان کے سنی اتحاد کونسل کو خواتین اور اقلیتوں کے لیے مخصوص نشستوں سے محروم کرنے کے فیصلے کو معطل کر تے ہوئے معاملہ لارجر بینچ کو ارسال کردیا تھا۔

3 مئی کو ‏پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کو مخصوص نشستیں نہ ملنے کا مقدمہ سپریم کورٹ میں سماعت کے لیے مقرر ہوگیا تھا۔

4 مارچ کو الیکشن کمیشن آف پاکستان نے سنی اتحاد کونسل کو مخصوص نشستیں الاٹ کرنے کی درخواستیں مسترد کردی تھیں۔

چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجہ کی سربراہی میں 5 رکنی کمیشن نے 28 فروری کو درخواستوں پر سماعت کرتے ہوئے فیصلہ محفوظ کیا تھا۔

الیکشن کمیشن آف پاکستان نے آئین کے آرٹیکل 53 کی شق 6، الیکشن ایکٹ کےسیکشن 104 کےتحت فیصلہ سناتے ہوئے مخصوص نشستیں الاٹ کرنے کی سنی اتحاد کونسل کی درخواست کو مسترد کردیا تھا۔

چار ایک کی اکثریت سے جاری 22 صفحات پر مشتمل فیصلے میں الیکشن کمیشن نے کہا کہ سنی اتحاد کونسل کو مخصوص نشستیں الاٹ نہیں کی جا سکتی، قانون کی خلاف ورزی اور پارٹی فہرست کی ابتدا میں فراہمی میں ناکامی کے باعث سنی اتحاد کونسل مخصوص نشستوں کی حقدار نہیں، سنی اتحاد کونسل نے مخصوص نشستوں کے لیے لسٹ جمع نہیں کرائی۔

فیصلے میں کہا گیا کہ یہ مخصوص نشستیں خالی نہیں رہیں گی، یہ مخصوص متناسب نمائندگی کے طریقے سے سیاسی جماعتوں میں تقسیم کی جائیں گی۔

الیکشن کمیشن نے تمام خالی مخصوص نشستیں دیگر جماعتوں کو الاٹ کرنے کا فیصلہ کرتے ہوئے مسلم لیگ (ن) ، پیپلزپارٹی، ایم کیو ایم پاکستان اور جمعیت علمائے اسلام فضل الرحمٰن (جے یو آئی ف) کو دینے کی درخواست منظور کی تھی۔

چیف الیکشن کمشنر، ممبر سندھ، خیبر پختونخوا اور بلوچستان نے اکثریتی فیصلے کی حمایت کی جب کہ ممبر پنجاب بابر بھروانہ نے اکثریتی فیصلے سے اختلاف کیا تھا۔

بعد ازاں 4 مارچ کو پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) نے مخصوص نشستیں الاٹ نہ کرنے کے الیکشن کمیشن آف پاکستان کے فیصلے کو ’غیر آئینی‘ قرار دیتے ہوئے سپریم کورٹ میں چیلنج کرنے کا اعلان کیا تھا۔

Similar Posts