شکوہ کوئی دریا کی روانی سے نہیں ہے

0 minutes, 0 seconds Read

27 جون کو سوات میں ایک ہی خاندان کے 10 افراد دریا میں ڈوب کر جاں بحق ہوئے، واقعہ انتظامیہ کی غفلت اور بروقت ریسکیو نہ ہونے کا نتیجہ تھا۔ سیاحتی مقامات پر حفاظتی انتظامات کا فقدان انسانی جانوں کے ضیاع کا باعث بنا۔

27 جون 2025 کو سوات میں پیش آنے والی ایک المناک خبر نے پورے پاکستان کو غمگین کر دیا۔ ایک ہی خاندان کے 10 افراد دریا سوات میں ڈوب کر جاں بحق ہوگئے۔ یہ سانحہ اتنا دل دہلا دینے والا تھا کہ جب میں نے سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی اس خاندان کے دریا میں بہنے کی مزید فوٹیجز دیکھیں تو میری آنکھوں میں بھی آنسو آگئے۔ مجھے اس تکلیف دہ منظر کو مزید دیکھنا برداشت نہ ہو سکا، اور دل پسیج گیا۔

یہ بدنصیب خاندان سیالکوٹ کا رہائشی تھا اور 27 جون کو بچوں کے ہمراہ سیروتفریح کے لیے ناران آیا تھا۔ ان کا سفر خوشگوار انداز میں شروع ہوا، مگر موت انہیں سوات کے دریا تک لے آئی۔ خاندان کے افراد سوات میں ایک ہوٹل میں ٹھہرے اور وہاں آرام کے بعد دریا کے کنارے سیر کے لیے نکل گئے۔

طوفانی بارشوں کے باعث دریائے سوات بپھرا ہوا تھا اور مختلف مقامات پر سیلابی ریلے تھے جن میں یہ خاندان بھی پھنس گیا۔ مجموعی طور پر 57 افراد کو ریسکیو کرکے بچایا گیا، لیکن 12 افراد کی لاشیں نکالی گئیں۔ باقی افراد کی تلاش کا عمل ابھی جاری تھا اور سرچ آپریشن مالا کنڈ تک پھیلایا گیا۔

فضاگٹ کے مقام پر سیالکوٹ اور مردان کے دو خاندانوں کے سات افراد جن میں بچے، خواتین اور بزرگ بھی شامل تھے، دریا کی بے رحم لہروں کی نذر ہوگئے۔ ان میں سے تین افراد کو بچا لیا گیا، لیکن باقی افراد کو بچانے کی کوششیں ناکام رہیں۔ امدادی سرگرمیوں کے لیے فوجی دستے بھی پہنچے، مگر دو گھنٹے تک کارروائی نہ کی جا سکی۔ یہ تباہی تب آئی جب سیاح دریا میں سیلفی لینے کے شوق میں بہک گئے تھے۔

سابق ڈپٹی کمشنر سوات شہزاد محبوب کے مطابق سیاح تصویر بنانے کی غرض سے خود دریا میں اترے تھے اور ایک سیاح نے بتایا کہ وہ ناشتہ کر کے چائے پی رہے تھے اور بچے دریا کے قریب سیلفی لینے گئے تھے۔ اس وقت دریا میں اتنا پانی نہیں تھا، لیکن اچانک سیلابی ریلا آیا، جس کے نتیجے میں بچے دریا کے ایک ٹیلے پر پھنس گئے۔ ریسکیو ٹیمیں دو گھنٹے بعد وہاں پہنچیں، لیکن اس دوران پورا خاندان دریا میں ڈوب چکا تھا۔

اس واقعے پر تمام سیاحتی مقامات کی حفاظت کے انتظامات پر سوالات اٹھنے لگے۔ سیاحوں کے لیے کوئی حفاظتی انتظامات نہ ہونے کے باعث یہ سانحہ پیش آیا۔ سیاحوں کی تصاویر بنانے کی خواہش اور خود کو خطرے میں ڈالنے کی عادت نے ایک اور سانحے کو جنم دیا۔ حکومتی غفلت اور انتظامی ناکامی نے اس واقعے کو مزید دلخراش بنا دیا۔ لوگوں کا کہنا تھا کہ اگر ریسکیو ٹیموں کو فوری طور پر اطلاع دی جاتی تو شاید یہ انسانی جانیں بچائی جا سکتی تھیں۔

اس واقعے نے مجھے معروف شاعر منیر نیازی کا شعر یاد دلایا:

”اک اور دریا کا سامنا تھا منیر مجھ کو
میں ایک دریا پار اترا تو میں نے دیکھا“

دریا میں سیلفی کے شوق میں جانی جانے والے اس خاندان کو واپسی کے لیے ایک اور دریا کا سامنا کرنا پڑا۔ میری دست بدستہ قوم سے گزارش ہے کہ خدارا اپنی اور اپنے پیاروں کی حفاظت خود کریں۔ موسمیاتی تبدیلی، گلیشیئرز کا تیزی سے پگھلنا اور دریاؤں میں آئے دن سیلابی ریلے اس بات کا عندیہ ہیں کہ ہمیں خطرات کے بارے میں شعور حاصل کرنا ضروری ہے۔

سیاحتی مراکز پر لوگ دریا میں ٹھنڈے پانی سے لطف اندوز ہو رہے ہوتے ہیں، لیکن ذرا سی غفلت اور لاپرواہی قیمتی جانوں کا سبب بن سکتی ہے۔ یہ لمحہ فکریہ ہے کہ لوگ حکومت کی مدد کا انتظار نہ کریں۔ ہمیں خود اپنی تدابیر کرنی چاہئیں تاکہ کسی بھی سانحے کا شکار ہونے سے بچا جا سکے۔ تماشائی بننے کے بجائے دوسروں کی مدد کرنا ہماری ذمہ داری ہے۔

بدقسمتی سے، ہمارے حکمران ہمیشہ بیان بازی میں ملوث رہتے ہیں اور کسی ایک سانحے سے سبق نہیں سیکھتے۔ پنجاب کی وزیراعلیٰ کی ترجمان نے کہا کہ اس وقت وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا اڈیالہ جیل کی یاترا پر تھے، جبکہ گورنر خیبر پختونخوا نے اس واقعے کے بعد کہا کہ لوگوں کو سیر و تفریح کے مقامات سے خوفزدہ نہ کیا جائے، مگر گورنر صاحب کیا یہ ممکن ہے کہ اس سانحے کے بعد یہ خاندان ساری زندگی سیر و تفریح سے خوفزدہ نہ ہو؟ ان کا علاج کس طرح ہوگا؟

Similar Posts