بین الاقوامی خبررساں ادارے ”رائٹرز“ کا آفیشل ”ایکس“ (سابق ٹوئٹر) اکاؤنٹ بھارت میں حکومتی احکامات کے تحت بلاک کر دیا گیا ہے، جو کہ آزادی اظہار رائے اور آزادی صحافت پر ایک اور سنگین قدغن ہے۔ بھارتی حکومت کی جانب سے اسے ”قانونی مطالبے“ کی بنیاد پر روکا گیا ہے، تاہم اس اقدام کی وجوہات تاحال ظاہر نہیں کی گئیں۔
دنیا کے معتبر ترین عالمی میڈیا اداروں میں شمار کئے جانے والے ادارے ”رائٹرز“ نے تاحال اس پابندی پر باضابطہ بیان جاری نہیں کیا۔ ادارہ ”تھامسن رائٹرز“ کے تحت کام کرنے والا ”رائٹرز“ 200 سے زائد مقامات پر اپنے 2,600 سے زیادہ صحافیوں کے ذریعے دنیا بھر میں خبروں کی ترسیل کرتا ہے۔
پاکستانی سیلیبرٹیز کے سوشل میڈیا اکاؤنٹس بھارت میں کھولے جانے کے فوراً بعد دوبارہ بند
ذرائع کا کہنا ہے کہ بھارتی حکومت کا یہ قدم دراصل تنقید برداشت نہ کرنے کی پالیسی کا تسلسل ہے، جس کے تحت پہلے بھی بی بی سی، الجزیرہ، دی وائر، دی کاروان، اور دیگر آزاد صحافتی اداروں کو نشانہ بنایا جا چکا ہے۔ رائٹرز کا بھارت میں بلاک کیا جانا نہ صرف اظہار رائے کے بنیادی انسانی حق کی خلاف ورزی ہے بلکہ عالمی سطح پر بھارت کی جمہوریت پسندی کے دعووں کو بھی مشکوک بنا دیتا ہے۔
میڈیا ماہرین کا کہنا ہے کہ مودی سرکار سچائی اور تنقید سے خوفزدہ ہے اور بھارت میں اختلافی آوازوں کو دبانے کے لیے سوشل میڈیا سینسرشپ کو بطور ہتھیار استعمال کیا جا رہا ہے۔
خوفزدہ بھارت نے پاکستانی صحافیوں کے سوشل میڈیا اکاؤنٹس بلاک کردئے
آزادی صحافت کے عالمی نگراں ادارے ”رپورٹرز وِدآؤٹ بارڈرز“ کی درجہ بندی میں بھارت پہلے ہی خطرناک ممالک کی فہرست میں شامل ہو چکا ہے، اور رائٹرز جیسے عالمی ادارے کو بلاک کرنا اس صورت حال کو مزید تشویشناک بنا رہا ہے۔
صحافتی حلقے اس اقدام کو ایک آمریت زدہ ذہنیت کا عکاس قرار دے رہے ہیں، جہاں حکومت سچ کو چھپانے کے لیے عالمی اداروں کو بھی خاموش کرانے سے دریغ نہیں کر رہی۔