اسرائیل کی چالاکی، غزہ جنگ بندی کے بدلے تعمیر نو کی شرائط پر قطر کو استعمال کرنے کی کوشش

0 minutes, 0 seconds Read

اسلامی دنیا کی مسلسل مذمت، فلسطینی عوام کی قربانیاں اور عالمی سطح پر اسرائیل کے خلاف بڑھتی ہوئی نفرت کے بعد بالآخر اسرائیل نے غزہ میں ممکنہ جنگ بندی کے دوران تعمیر نو کیلئے قطر اور دیگر ممالک کو وسائل فراہم کرنے کی مشروط اجازت دینے پر ”رضامندی“ ظاہر کی ہے۔ تاہم اسرائیلی چالاکی یہ ہے کہ وہ قطر کو تنہا فنڈنگ کی اجازت نہیں دینا چاہتا اور اس میں دیگر ممالک کو بھی شامل کرنے پر اصرار کر رہا ہے۔

حماس کی جانب سے یہ شرط واضح ہے کہ جب تک تعمیر نو اور امدادی اقدامات کی بین الاقوامی ضمانت نہیں دی جاتی، وہ کسی عارضی یا مستقل جنگ بندی کو سنجیدگی سے نہیں لے گی۔ حماس کے لیے یہ پیغام انتہائی اہم ہے کہ اہلِ غزہ کو باور کرایا جا سکے کہ جنگ ختم ہونے والی ہے۔ اسی حوالے سے قطر کے وفد نے واشنگٹن میں امریکی حکام سے بات چیت کی، جہاں اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو بھی یرغمالیوں کے تبادلے کے بہانے موجود تھے۔

اس سارے کھیل میں اسرائیل کی سب سے بڑی ضد ”موراغ کوریڈور“ پر کنٹرول ہے، جو خان یونس اور رفح کو جوڑتا ہے۔ اسرائیل چاہتا ہے کہ وہ یہاں اپنی فوجی موجودگی قائم رکھے تاکہ ہزاروں فلسطینیوں کی نقل و حرکت کو اپنی چیک پوسٹوں سے کنٹرول کر سکے، چاہے وہ رفح واپس آ رہے ہوں یا جبراً بےدخل کیے گئے ہوں۔

اسرائیل یہاں ایک نئی ”انسانی شہر“ تعمیر کرنے کی آڑ میں رفح کی تباہ شدہ بستیوں کو خیمہ بستیوں سے بدلنے کا منصوبہ رکھتا ہے — ایک اور انسانی جیل کی تیاری۔ فلسطینی ذرائع کے مطابق مذاکرات رُکے ہوئے ہیں، لیکن اسرائیل نے قطر کو نئی تجاویز پیش کی ہیں جن میں فوجی قبضے کو نرم الفاظ میں پیش کیا گیا ہے۔

نیتن یاہو کے دورۂ امریکہ کے دوران ایک اعلیٰ اسرائیلی اہلکار نے رائٹرز کو بتایا کہ ایک سے دو ہفتوں کے اندر جنگ بندی کا امکان ہے، لیکن اگر حماس نے ہتھیار نہ ڈالے تو اسرائیل دوبارہ حملے کرے گا۔ یہ وہی اسرائیل ہے جو خود جنگ بندی کی بھیک مانگ رہا ہے مگر ظاہر ایسے کر رہا ہے جیسے مہربانی کر رہا ہو۔

حماس کے ترجمان طاہر النونو نے الجزیرہ کو بتایا کہ تنظیم دوحہ میں ثالثوں سے بھرپور تعاون کر رہی ہے اور انسانی بنیادوں پر دس اسرائیلی یرغمالیوں کو چھوڑنے پر آمادگی ظاہر کی ہے، تاکہ امداد بہم پہنچے اور اسرائیلی جارحیت رُکے۔ النونو نے اس بات پر زور دیا کہ حماس کسی ایسے سمجھوتے کو قبول نہیں کرے گی جس سے فلسطینیوں کی عزت نفس مجروح ہو یا جبری بے دخلی کو جواز ملے۔

برطانیہ سے اسرائیل کے خلاف اقدامات، جنوبی افریقہ کی عالمی عدالت میں درخواست، ترکی و عرب دنیا کی شدید مخالفت اور اب اسرائیل کا تعمیر نو کے بدلے جنگ بندی کی کوشش کرنا اس بات کا اشارہ ہے کہ صہیونی ریاست عالمی سطح پر تنہائی کا شکار ہو چکی ہے۔ امریکہ اور اس کے اتحادی، جو ماضی میں اسرائیل کی پشت پناہی کرتے تھے، اب خود جنگ کے نتائج سے خوف زدہ دکھائی دیتے ہیں۔

Similar Posts