پنجاب اسمبلی میں ایک جانب آئینی عملداری کے تحت معطل ارکان کیخلاف نااہلی ریفرنسز پر کارروائی کا آغاز کر دیا گیا ہے، تو دوسری طرف اپوزیشن نے اسمبلی کے باہر احتجاجاً اپنی ”حقیقی اسمبلی“ لگا دی ہے، جس سے صوبائی سیاست میں ایک نئی کشیدگی جنم لے چکی ہے۔
پنجاب اسمبلی کے ترجمان کے مطابق اسپیکر پنجاب اسمبلی کو 26 معطل ارکان کے خلاف آئینی ریفرنسز موصول ہو چکے ہیں۔ ان ریفرنسز پر کارروائی آئین کے آرٹیکل 63-A کے تحت کی جا رہی ہے، جس کے تحت ہر رکن کو شفاف اور قانونی سماعت کا مکمل حق حاصل ہوگا۔ ترجمان نے بتایا کہ اسپیکر نے فیصلہ کیا ہے کہ تمام 26 معطل ارکان کو ذاتی سماعت کا موقع دیا جائے گا، جو 11 جولائی کو صبح 11 بجے اسپیکر چیمبر میں منعقد ہوگی۔
اسپیکر کے مطابق آئینی تقاضے پورے کرتے ہوئے ریفرنسز پر 30 روز کے اندر فیصلہ کرنا ضروری ہے۔ تمام معطل ارکان کو اپنے دفاع کا مکمل حق دیا جائے گا تاکہ کوئی بھی رکن آئینی حق سے محروم نہ ہو۔
دوسری جانب پنجاب اسمبلی کے باہر سیاسی منظر نامہ مختلف دکھائی دیا۔ اپوزیشن نے معطل ارکان کی اسمبلی سے جبری بے دخلی کے خلاف سخت احتجاج کیا اور اسمبلی کے باہر ہی ”اپنی حقیقی اسمبلی“ لگا لی۔ اس علامتی اسمبلی میں اپوزیشن رہنما اعجاز شفیع کو اسپیکر منتخب کیا گیا، جب کہ دیگر ارکان نے اجلاس میں شرکت کی۔
اسمبلی کے باہر اپوزیشن لیڈر ملک احمد خان بچھر نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا، ’ہمیں غیر قانونی طور پر ایوان سے نکالا گیا، اسی لیے ہم اپنی جمہوری اسمبلی لگانے پر مجبور ہوئے۔‘ انہوں نے کہا کہ یہ ”فارم 47 کی حکومت“ ہے اور پنجاب کا بجٹ فراڈ پر مبنی ہے۔
ملک احمد بچھر نے حکومت کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ بارش کے بعد پورا لاہور پانی میں ڈوب چکا ہے لیکن حکومت بجائے مسائل حل کرنے کے، جمہوریت کا گلا گھونٹ رہی ہے۔
اس دوران پنجاب اسمبلی کے باہر پولیس کی بھاری نفری تعینات کر دی گئی جبکہ خاردار تاریں اور بیریئر بھی لگا دیے گئے تھے تاکہ اپوزیشن کے احتجاج کو کنٹرول میں رکھا جا سکے۔