پاکستان میں نوجوانوں کے تیار کردہ جدید سائنسی منصوبے صرف سرمایہ کاری کی کمی کے باعث ضائع ہو رہے ہیں۔ اسٹارٹ اپس میں دلچسپی تو ہے مگر عملی تعاون نہ ہونے کی وجہ سے کئی قابلِ عمل آئیڈیاز فائلوں اور لیبارٹریز تک محدود ہو کر رہ گئے ہیں۔
علی گڑھ انسٹیٹیوٹ آف ٹیکنالوجی کراچی میں منعقدہ ایک نمائش میں طلبا و طالبات نے ایسے سادہ مگر اہم پروجیکٹس پیش کیے جو نہ صرف مقامی صنعتی مسائل کا حل پیش کرتے ہیں بلکہ انہیں قومی سطح پر اپنایا جا سکتا ہے۔
نمائش میں پیش کیا گیا ایک منصوبہ ایسا چھوٹا واٹر فلٹریشن سسٹم ہے جو گندے اور کھارے پانی کو صاف کر کے پینے کے قابل بناتا ہے۔ یہ منصوبہ چند طلبا نے محض چار سے پانچ ہزار روپے کی لاگت سے تیار کیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ سسٹم کراچی جیسے شہروں میں پانی کی قلت کے مسئلے کو کم کرنے میں مددگار ثابت ہو سکتا ہے۔
اسی نمائش میں ایک اور طالب علم، حسان اسلم نے ”سولر آٹومیشن“ پروجیکٹ پیش کیا، جس میں سولر پلیٹس میں نصب سینسر خودکار طریقے سے سورج کی سمت کا تعین کرتے ہوئے اپنی پوزیشن تبدیل کرتے ہیں تاکہ زیادہ سے زیادہ شمسی توانائی حاصل کی جا سکے۔ ان کے مطابق یہ ٹیکنالوجی بجلی کی بچت کے ساتھ ساتھ کارکردگی میں بھی اضافہ کر سکتی ہے۔
اعداد و شمار کے مطابق سال 2023 میں پاکستان میں اسٹارٹ اپس میں سرمایہ کاری میں 77 فیصد کمی ہوئی، اور کل سرمایہ صرف 7 کروڑ 56 لاکھ ڈالر رہا۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر تعلیمی اداروں میں تیار ہونے والے ان منصوبوں کو حکومتی یا نجی سطح پر سرمایہ فراہم کیا جائے تو یہ ملکی معیشت اور صنعتی ترقی میں نمایاں کردار ادا کر سکتے ہیں۔
نمائش کا مقصد نہ صرف طلبہ کی صلاحیتوں کو اجاگر کرنا تھا بلکہ سرمایہ کاروں کی توجہ ان قابل عمل منصوبوں کی طرف مبذول کروانا بھی تھا۔ تاہم، اب یہ دیکھنا باقی ہے کہ آیا ان جدت پسند نوجوانوں کو وہ پلیٹ فارم اور معاونت فراہم کی جائے گی یا ان کا جذبہ بھی روایتی بےحسی کی نذر ہو جائے گا۔