اسرائیلی فوج کے خلاف جنگی جرائم کے 88 فیصد مقدمات بغیر کسی کارروائی کے بند

0 minutes, 0 seconds Read

بین الاقوامی تنظیم ”ایکشن آن آرمڈ وائلنس“ (اے او اے وی) کی ایک رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ غزہ میں جنگ کے آغاز کے بعد اسرائیلی فوج کے خلاف جنگی جرائم یا بدسلوکی کے الزامات پر کی گئی تحقیقات میں سے تقریباً 88 فیصد مقدمات یا تو بغیر کسی نتیجے کے بند کر دیے گئے یا ابھی تک حل نہیں ہو سکے۔

برطانوی اخبار ”دی گارڈین“ میں شائع رپورٹ کے مطابق فروری 2024 میں غزہ شہر میں آٹے کی قطار میں کھڑے کم از کم 112 فلسطینیوں کے قتل کا واقعہ، اور مئی 2024 میں رفح میں خیمہ بستی پر حملے میں 45 افراد کی ہلاکت کی تحقیقات بھی تاحال غیر حل شدہ ہیں۔ اسی طرح یکم جون 2024 کو رفح میں راشن لینے والے 31 فلسطینیوں کی ہلاکت کا واقعہ بھی ابھی زیر تفتیش ہے۔

عینی شاہدین کے مطابق یہ افراد اسرائیلی فوج کی فائرنگ کا نشانہ بنے، تاہم اسرائیلی ڈیفنس فورسز (آئی ڈی ایف) نے ابتدائی طور پر ان خبروں کو ”جھوٹا“ قرار دیا، بعدازاں دی گارڈین سے گفتگو میں کہا کہ واقعے کی ابھی ’جانچ پڑتال جاری ہے‘۔

حماس نے ہتھیار ڈالنے کو فلسطین کی آزادی سے مشروط کردیا

اے او اے وی کے محققین آئین اوورٹن اور لوکاس زانٹزورِس کا کہنا ہے کہ ان اعدادوشمار سے یہ ظاہر ہوتا ہے، اسرائیل دانستہ طور پر ’احتساب سے بچنے کا طریقہ کار‘ اختیار کر رہا ہے تاکہ اپنی فوج کے خلاف سنگین الزامات کو دبا سکے۔

رپورٹ میں بتایا گیا کہ اکتوبر 2023 سے جون 2025 کے آخر تک، میڈیا رپورٹس میں اسرائیلی فوج کی جانب سے 52 واقعات کی تحقیقات کا ذکر ملتا ہے، جن میں مجموعی طور پر 1303 فلسطینی مارے گئے اور 1880 زخمی ہوئے۔ ان میں صرف ایک مقدمے میں ایک اسرائیلی فوجی کو سزا ہوئی، ایک ریزرو فوجی جسے فلسطینی قیدیوں پر بہیمانہ تشدد کے الزام میں سات ماہ قید کی سزا دی گئی۔

مزید پانچ مقدمات میں بھی خلاف ورزیاں ثابت ہوئیں، جن میں سے ایک میں اپریل 2024 میں ورلڈ سینٹرل کچن کے سات امدادی کارکنوں کی ہلاکت کے بعد ایک کرنل اور میجر کو برطرف اور تین افسران کو سرزنش کیا گیا۔ تاہم امدادی تنظیم نے اس تفتیش کو ناقابلِ اعتبار قرار دیا۔

باقی 46 مقدمات، جو کل کیسز کا 88 فیصد بنتے ہیں، ان میں سات کو بغیر کسی سزا یا الزام کے بند کر دیا گیا جبکہ 39 مقدمات تاحال زیرِ جائزہ ہیں یا ان کا کوئی نتیجہ سامنے نہیں آیا، جن میں گزشتہ ماہ کے دوران غزہ میں راشن پوائنٹس کے قریب پیش آئے چار مہلک واقعات بھی شامل ہیں۔

اسرائیل نے متحدہ عرب امارات سے اپنا سفارتی عملہ واپس کیوں بلا لیا؟

اسرائیلی فوج کا دعویٰ ہے کہ وہ ہر شکایت یا الزام کی ابتدائی جانچ کرتی ہے اور ضرورت پڑنے پر ملٹری پولیس تحقیقات یا فیکٹ فائنڈنگ اسسمنٹ (ایف ایف اے) کے تحت معاملات کو آگے بڑھایا جاتا ہے۔ تاہم انسانی حقوق کی اسرائیلی تنظیم ”یش دین“ کے مطابق ایف ایف اے نظام غیر شفاف اور سست رفتار ہے اور اس کے تحت 664 مقدمات میں صرف ایک ہی معروف مقدمہ فوجداری کارروائی تک پہنچا۔

اگست 2024 میں آئی ڈی ایف نے کہا تھا کہ غزہ جنگ کے دوران ”سینکڑوں واقعات“ سے متعلق معلومات جمع کی گئی ہیں اور 74 فوجداری تحقیقات شروع کی گئی ہیں، جن میں 52 قیدیوں کے ساتھ بدسلوکی، 13 دشمن کے اسلحے کی چوری، تین شہری املاک کی غیر ضروری تباہی، اور چھ غیر قانونی طاقت کے استعمال کے الزامات شامل ہیں۔

اے او اے وی کا کہنا ہے کہ اس نے وہ مقدمات گنے ہیں جن کی تحقیقات کا ذکر میڈیا میں آیا، خواہ ان کا آغاز ہو چکا ہو یا نہ ہو، جب کہ اسرائیلی فوج کے دعوے مختلف طریقہ کار پر مبنی ہیں۔

اسرائیل غزہ میں کب تک لڑائی جاری رکھے گا؟ اسرائیلی آرمی چیف کا بڑا اعلان

تاہم حقیقت یہ ہے کہ زیادہ تر کیسز ابھی تک بغیر نتیجے کے بند کر دیے گئے ہیں یا جانچ میں الجھے ہوئے ہیں، اور متاثرہ فلسطینیوں کو انصاف فراہم نہیں کیا جا رہا۔ عالمی مبصرین کے مطابق اسرائیل کی اس روش سے قانون کی بالادستی، انسانی حقوق، اور بین الاقوامی انصاف کے اصولوں کو شدید دھچکہ پہنچ رہا ہے۔

Similar Posts