امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے گزشتہ ہفتے ایک اہم تجارتی اقدام کیا جس کے تحت انہوں نے عالمی سطح پر ایک ایسا استثنیٰ ختم کر دیا جس کے تحت 800 ڈالر تک کے چھوٹے پارسل امریکہ میں بغیر کسی ڈیوٹی کے داخل ہو جاتے تھے۔ یہ نیا حکم خاص طور پر چینی ای کامرس کمپنیوں جیسے ’شین‘ اور ’ٹیمو‘ کے لیے ایک بڑا دھچکا ثابت ہو گا، جو اس لوپ ہول کو استعمال کرتے ہوئے اپنے سامان کو ڈیوٹی فری بھیجنے میں کامیاب ہو جاتی تھیں۔
پہلے، چین اور ہانگ کانگ سے آنے والے 800 ڈالر تک کے سامان کو امریکہ میں بغیر کسی اضافی ٹیکس یا ڈیوٹی کے داخل ہونے کی اجازت تھی، جس کا فائدہ چینی کمپنیوں نے اپنی بڑی شپنگ تعداد کے ذریعے اٹھایا۔ ٹرمپ کی طرف سے اس استثنیٰ کو ختم کرنے کا مقصد عالمی تجارت میں مزید شفافیت اور روک تھام کو یقینی بنانا ہے، تاکہ سامان میں چھپے غیر قانونی مادے یا منشیات کی اسمگلنگ کو روکا جا سکے۔
یہ فیصلہ چین اور ہانگ کانگ کے علاوہ دیگر ممالک کے لیے بھی لاگو ہو گا، جس کا اثر عالمی سطح پر مصنوعات کی قیمتوں پر پڑ سکتا ہے۔ اس اقدام سے امریکہ میں ان سامان کی قیمتیں بڑھ سکتی ہیں جو اب ڈیوٹی فری نہیں رہیں گے، اور خاص طور پر غریب امریکی خاندانوں کو زیادہ قیمتوں کا سامنا ہو سکتا ہے۔
ٹرمپ نے یہ اعلان ایک ایگزیکٹو آرڈر کے ذریعے کیا ہے اور اس میں یہ بھی کہا گیا کہ اب امریکی کسٹمز کو ہر پارسل کی اصل ملک کی معلومات فراہم کرنا ضروری ہوگا۔ اس سے یہ بھی ممکن ہو گا کہ کمپنیاں اپنا سامان امریکہ پہنچانے کے لیے کسی اور راستے کا انتخاب کریں یا اپنے مال کو بڑی مقدار میں بھیجیں، مگر ان کی قیمتوں میں اضافے کا خدشہ ہے۔
یہ اقدام خاص طور پر چین سے مال بھیجنے والی کمپنیوں کے لیے ایک بڑی مشکل بن سکتا ہے، اور اس سے امریکہ کے صارفین کی قیمتوں میں بھی اضافہ ہو سکتا ہے۔