بھارت نے روس سے تیل کی درآمد پر مغربی تنقید کا جواب دیتے ہوئے امریکا اور یورپی یونین پر دہرا معیار اپنانے کا الزام عائد کیا ہے۔ بھارتی وزارت خارجہ (ایم ای اے) کی جانب سے جاری کردہ ایک سخت بیان میں کہا گیا کہ امریکا اور یورپی ممالک خود روس سے یورینیم، کھاد، کیمیکلز اور دیگر اشیاء درآمد کر رہے ہیں، جبکہ بھارت کو اسی عمل پر نشانہ بنایا جا رہا ہے۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے جب اس بارے میں سوال کیا گیا تو انہوں نے لاعلمی ظاہر کرتے ہوئے کہا: ’مجھے اس بارے میں کچھ علم نہیں، مجھے یہ دیکھنا پڑے گا۔‘
بھارتی وزارت خارجہ کے ترجمان رندھیر جیسوال نے 4 اگست کو جاری بیان میں کہا کہ بھارت کے خلاف لگائے گئے الزامات ”غیر منصفانہ اور غیر معقول“ ہیں۔ انہوں نے کہا: ’بھارت ایک خودمختار معیشت ہے اور اپنے قومی مفادات اور معاشی تحفظ کے لیے تمام ضروری اقدامات اٹھائے گا۔‘
”واشنگٹن کی بالا دستی ماضی کا قصہ بن چکی“ امریکا کی دھمکیوں پر روس کا زبردست جواب
انہوں نے مزید کہا کہ ’روس سے درآمدات کا فیصلہ اس وقت کیا گیا جب جنگ کے بعد روایتی سپلائی یورپ کی طرف منتقل ہو گئی تھی۔ اُس وقت خود امریکا نے بھارت کو روسی تیل خریدنے کی ترغیب دی تاکہ عالمی توانائی مارکیٹ میں استحکام لایا جا سکے۔‘
جیسوال نے کہا کہ بھارت نے روسی تیل سستا خرید کر مقامی صارفین کے لیے قابل برداشت توانائی کو یقینی بنایا، مگر حیرت انگیز طور پر وہی ممالک جو بھارت پر تنقید کر رہے ہیں، خود روس سے بڑے پیمانے پر تجارت جاری رکھے ہوئے ہیں۔
انہوں نے یورپی یونین کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ 2024 میں یورپ نے 16.5 ملین ٹن روسی ایل این جی درآمد کی، جو 2022 کے 15.21 ملین ٹن کے پچھلے ریکارڈ سے بھی زیادہ ہے۔ امریکا بھی روس سے یورینیم، پیلیڈیم، کھاد اور کیمیکلز خرید رہا ہے۔
ٹرمپ کی دھمکی اور بھارت کا ردعمل
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے گذشتہ ہفتے بھارتی مصنوعات پر 25 فیصد ٹیرف عائد کرنے کا اعلان کیا تھا، جو 7 اگست سے نافذ العمل ہو گا۔ اس کے بعد ایک سوشل میڈیا پوسٹ میں انہوں نے کہا کہ وہ بھارت پر مزید بھاری ٹیرف لگائیں گے، کیونکہ بھارت روسی تیل خرید رہا ہے۔
’امریکہ خود روس سے خریداری کرتا ہے، ہمیں طعنے کیوں؟‘ ٹرمپ کی دھمکی پر بھارت کا رد عمل
بھارت نے اس دھمکی کا سخت ردعمل دیا اور دو گھنٹے بعد ہی بیان جاری کیا کہ ’بھارت کو نشانہ بنانا دہرا معیار ہے، خود مغرب خاموشی سے روسی تیل کی خریداری کی حوصلہ افزائی کرتا رہا ہے۔‘
روس کا ردعمل
کریملن کے ترجمان دمتری پیسکوف نے بھی مغرب کی جانب سے بھارت پر دباؤ ڈالنے کی مذمت کی اور فرانسیسی خبر رساں ایجنسی ”اے ایف پی“ سے گفتگو میں کہا: ’خود مختار ممالک کو اپنی تجارتی شراکت داروں کے انتخاب کا حق حاصل ہے، مغرب کی یہ مداخلت ناجائز ہے۔‘
یورپی پابندیاں اور بھارتی ریفائنری پر اثرات
یورپی یونین نے حال ہی میں بھارت کی نجی ریفائنری کمپنی ”نایارا“ پر پابندیاں عائد کر دی ہیں، جس کی ملکیت میں روسی اکثریت ہے۔ اس کے علاوہ یورپ نے روسی خام تیل سے تیار شدہ مصنوعات کی درآمد پر بھی پابندی لگا دی ہے، جس سے بھارت کو شدید مالی نقصان ہو سکتا ہے۔
ایس اینڈ پی گلوبل کے مطابق بھارت نے روسی تیل خرید کر ریفائن کیا اور یورپ کو فروخت کیا، جس سے 2019 کے 5.9 ارب ڈالر سے 2024 میں 20.5 ارب ڈالر کی برآمدات ہوئیں۔ لیکن اب پابندیوں کی وجہ سے بھارت کی برآمدی آمدنی متاثر ہونے کا خدشہ ہے۔
بھارت یوکرین جنگ میں روس کی مدد کیسے کر رہا ہے؟ ٹرمپ کے خاص کا بڑا دعویٰ
مغربی مفادات اور بھارتی تنقید
بھارتی معیشت دانوں کے مطابق، امریکا اور یورپی یونین بھارت پر دباؤ ڈال کر ایک تجارتی معاہدہ حاصل کرنا چاہتے ہیں جو مغرب کے حق میں ہو۔ خاص طور پر زرعی سیکٹر میں بھارت کا مؤقف سخت ہے کیونکہ ملک کی نصف سے زائد آبادی کا دارومدار زراعت پر ہے۔
یونیورسٹی آف میساچوسٹس ایمہرسٹ میں معاشیات کی پروفیسر جیتی گھوش نے ”الجزیرہ“ سے گفتگو میں کہا کہ ’امریکا اور یورپ خود روس سے درآمدات کر رہے ہیں، انہیں اجازت ہے اور بھارت کو منع کیا جا رہا ہے، یہ مضحکہ خیز ہے۔‘
کیا مغرب واقعی زیادہ تجارت کر رہا ہے؟
اعداد و شمار کے مطابق یورپی یونین نے 2024 میں روس کے ساتھ 67.5 ارب یورو کی تجارت کی، جب کہ بھارت کی تجارت 68.7 ارب ڈالر رہی۔ تاہم یورپ اب بھی روسی گیس کا بڑا خریدار ہے، جس پر 105.6 ارب ڈالر خرچ کیے گئے، جو روس کے 2024 کے فوجی بجٹ کا 75 فیصد ہے۔
امریکی تجارتی دفتر کے مطابق امریکا نے 2024 میں روس سے 5.2 ارب ڈالر کی مصنوعات درآمد کیں، جن میں کیمیکل بھی شامل ہیں۔
بھارت نے واضح پیغام دے دیا ہے کہ وہ مغرب کے دوہرے معیار کو مزید برداشت نہیں کرے گا۔ ماہرین کے مطابق یہ تنازع نہ صرف تجارتی پالیسیوں بلکہ عالمی سفارتی تعلقات پر بھی اثر انداز ہو سکتا ہے۔ مغرب کے لیے اب مشکل یہ ہے کہ وہ خود روس سے تجارت جاری رکھتے ہوئے بھارت سے کس منہ سے قربانی کا مطالبہ کرے۔