اسرائیل کی سیاسی و سیکیورٹی کابینہ نے جمعہ کے روز غزہ شہر پر فوجی کنٹرول حاصل کرنے کے منصوبے کی منظوری دے دی ہے، جو کہ صہونی وزیراعظم نیتن یاہو کے اس اعلان کے بعد سامنے آئی ہے کہ اسرائیل پورے غزہ پٹی پر فوجی کنٹرول کا ارادہ رکھتا ہے۔
اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو کے دفتر سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ اسرائیلی دفاعی افواج (IDF) غزہ شہر پر کنٹرول حاصل کرنے کی تیاری کریں گی، جبکہ جنگی علاقوں سے باہر موجود شہریوں کو انسانی امداد فراہم کی جائے گی۔
غزہ شہر، جو شمالی غزہ میں واقع ہے، محصور علاقے کا سب سے بڑا اور مرکزی شہر ہے۔ رائٹرز کے مطابق، اسرائیلی ذرائع کا کہنا ہے کہ اس منصوبے میں فلسطینی شہریوں کو غزہ شہر سے نکالنے اور پھر زمینی آپریشن شروع کرنے کا امکان شامل ہے۔
اسرائیلی وزیراعظم نے فاکس نیوز کو دیے گئے انٹرویو میں واضح کیا کہ اسرائیل غزہ پر قبضہ برقرار رکھنے کا خواہاں نہیں، بلکہ صرف ایک ”سیکیورٹی پٹی“ بنانا چاہتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اسرائیل اس علاقے کا انتظام کسی عرب طاقت کے حوالے کرنا چاہتا ہے، تاہم انہوں نے یہ واضح نہیں کیا کہ کن ممالک کو یہ ذمہ داری سونپی جائے گی۔
برطانوی خبر رساں ادارے کے مطابق، اسرائیلی فوجی قیادت اور حکومتی وزراء کے درمیان اس منصوبے پر اختلافات بھی سامنے آئے ہیں۔ فوجی سربراہ ایال زامیر نے اس آپریشن کے دائرہ کار کو وسعت دینے پر تحفظات کا اظہار کیا ہے۔
نیتن یاہو کے دفتر کا کہنا ہے کہ کابینہ کے ارکان کی اکثریت اس بات پر متفق ہے کہ موجودہ متبادل منصوبے سے نہ تو حماس کو شکست دی جا سکتی ہے اور نہ ہی یرغمالیوں کو بازیاب کرایا جا سکتا ہے۔ تاہم، منصوبے کو مکمل کابینہ سے منظور کرانا ابھی باقی ہے، جس کا اجلاس اتوار کو متوقع ہے۔
اسرائیلی میڈیا کے مطابق، منصوبے کے تحت غزہ کے باقی ماندہ علاقوں پر مرحلہ وار کنٹرول حاصل کرنے کا آپشن بھی زیرغور ہے، جس میں مقامی شہریوں کو ممکنہ فوجی کارروائی سے قبل پیشگی اطلاع دی جائے گی۔
واضح رہے کہ 2005 میں اسرائیل نے غزہ سے انخلا کر کے شہریوں اور فوج کو واپس بلا لیا تھا، تاہم سرحدوں، فضائی حدود اور دیگر بنیادی سہولیات پر کنٹرول برقرار رکھا تھا۔ دائیں بازو کی جماعتیں اس فیصلے کو حماس کے اقتدار میں آنے کی وجہ قرار دیتی ہیں۔
رائٹرز کے مطابق، اسرائیل اور امریکہ نے اس سال کے اوائل میں مصر کی حمایت یافتہ ایک تجویز کو مسترد کر دیا تھا، جس میں آزاد فلسطینی ماہرین پر مشتمل انتظامیہ کو جنگ کے بعد غزہ کا نظم و نسق سونپنے کی تجویز دی گئی تھی۔
حماس اور عرب ممالک کا ردعمل
ادھر فلسطین کی مزاحمتی تنظیم حماس نے نیتن یاہو کے بیان کو ”مذاکراتی عمل کے خلاف کھلی بغاوت“ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ اسرائیلی وزیراعظم کا اصل مقصد یرغمالیوں سے جان چھڑانا اور انہیں قربان کرنا ہے۔
عرب ممالک کی جانب سے بھی ردعمل سامنے آیا ہے۔ اردن کے ایک اعلیٰ حکومتی عہدیدار نے رائٹرز کو بتایا کہ عرب ممالک صرف اس حل کی حمایت کریں گے جس پر فلسطینی خود متفق ہوں، اور غزہ کی سیکیورٹی ”جائز فلسطینی اداروں“ کے ذریعے ہی ممکن ہے۔
حماس کے رہنما اسامہ حمدان نے الجزیرہ کو انٹرویو میں کہا ہے کہ غزہ میں کسی نئی فورس کو اسرائیل کی حامی قوت سمجھا جائے گا اور اسے قابض تصور کیا جائے گا۔
ادھر یروشلم میں جمعرات کی شب اسرائیلی وزیراعظم کے دفتر کے باہر سیکڑوں افراد نے جنگ بندی کے حق میں مظاہرہ کیا اور حکومت سے یرغمالیوں کی رہائی کے بدلے جنگ ختم کرنے کا مطالبہ کیا۔ مظاہرین نے حکومت کی پالیسیوں پر شدید برہمی کا اظہار کیا۔
رائٹرز کے مطابق، اس وقت بھی غزہ میں تقریباً 50 یرغمالی موجود ہیں، جن میں سے صرف 20 کے زندہ ہونے کی تصدیق کی گئی ہے۔ زیادہ تر رہائیاں سفارتی کوششوں کے نتیجے میں ہوئیں، تاہم جولائی میں ہونے والے جنگ بندی مذاکرات ناکام ہو گئے تھے۔
غزہ میں انسانی صورتحال بدترین ہو چکی ہے۔ لاکھوں افراد کئی بار بے گھر ہو چکے ہیں، اور بین الاقوامی ادارے قحط کے خدشے کا اظہار کر رہے ہیں۔ حالیہ دنوں میں یرغمالیوں کی کمزوری اور غزہ کے بچوں کی بھوک سے متعلق تصاویر عالمی سطح پر شدید ردعمل کا باعث بنی ہیں۔
اسرائیلی فوج کے مطابق، وہ اس وقت غزہ کے تقریباً 75 فیصد علاقے پر کنٹرول رکھتی ہے، مگر جنگ کا مکمل خاتمہ اور یرغمالیوں کی بازیابی تاحال حل طلب مسئلہ ہے۔