وزارتِ اطلاعات و نشریات نے جشن آزادی کے موقع پر قومی اخبارات میں سرکاری اشتہار جاری کیا جس میں بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح اور علامہ اقبال کی تصاویر شامل نہیں کی گئیں۔
جاری کردہ اشتہار میں فیلڈ مارشل عاصم منیر، چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی جنرل ساحر شمشاد مرزا سمیت پاک بحریہ اور پاکستان ائیرفورس کے سربراہان کو دکھایا گیا۔
اشتہار میں وزیر اعظم شہباز شریف، صدر آصف علی زرداری کی تصاویر بھی شامل کی گئی ہیں۔
اس کے علاوہ قومی پرچم، منارِ پاکستان، مختلف ثقافتوں کے لوگ اور خاص شعبوں سے وابستہ افراد کو بھی نمایاں انداز میں دکھایا گیا ہے۔
تاہم سوشل میڈیا پر مختلف سیاسی حلقوں نے جاری کردہ اشتہار کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔
پاکستان کے سابق سینیٹر مشاہد حسین سید نے ایکس پر اشتہار کی تصویر پوسٹ کی جس پر انہوں نے لکھا کہ کتنی شرم کی بات ہے! یوم آزادی پر حکومت پاکستان کے سرکاری اشتہار میں بانی پاکستان اور بابائے قوم قائد اعظم محمد علی جناح کی کوئی تصویر ہی شامل نہیں، بلکہ صرف عارضی عہدہ سنبھالنے والے افراد کی تصاویر ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کے بلند مرتبے کا سہرا قائد کی جدوجہد اور قربانی کے سر ہے!
سابق وفاقی وزیر شیریں مزاری نے جاری کردہ اشتہار پر تنقید کرتے ہوئے لکھا کہ وزارت اطلاعات کا اشتہار میں قائداعظم محمد علی جناح کی عدم موجودگی ایک واضح کوتاہی ہے۔
نجی ٹی چینل کے صحافی حسین احمد بھی خاموش نہ رہ سکے اور انہوں نے لکھا کہ عجیب صورتحال ہے وزارت اطلاعات کی طرف سے شائع اشتہار میں پاکستان بنانے والے قائد اعظم محمد علی جناح ، علامہ اقبال کی تصاویر ہی غائب ہیں۔
پاکستان تحریک انصاف کے آفیشل ایکس اکاؤنٹ پر بھی اشتہار کی تصویر پوسٹ کی گئی جس پر تنقید کرتے ہوئے کہا گیا کہ مائنس عمران خان کی سوچ سے مائنس محمد علی جناح اور مائنس قومی شاعر علامہ محمد اقبال تک کا شرمناک سفر۔
پوسٹ میں پی ٹی آئی نے لکھا کہ ’یہ کوئی غلطی نہیں ایک سوچی سمجھی سازش ہے یکم اگست سے لے کر 14 اگست تک مختلف حکومتی جماعت کی شخصیات نے ملک بھر میں آویزاں کیے گئے اشتہاری بورڈ پر بھی قائداعظم اور علامہ اقبال کی تصاویر نہیں تھی آج وزارت اطلاعات کے شائع کیے گئے سرکاری اشتہار میں بھی دونوں قومی ہیروز کی تصاویر نہیں ہیں۔
یاد رہے اس سے قبل 28 مئی یوم تکبیر کے موقع پر شائع ہونے والے سرکاری اشتہارات میں ایٹم بم بنا کر پاکستان کا دفاع ناقابل تسخیر کرنے والے محسن پاکستان ڈاکٹر قدیر خان کی تصاویر بھی شامل نہیں کی گئی تھیں۔