چین نے ایک اور مرتبہ دنیا کو اپنی جدید ٹیکنالوجی کا منفرد مظاہرہ دکھایا، جب اس نے تین روزہ ’ورلڈ ہیومینائیڈ روبوٹ گیمز‘ کا انعقاد کیا۔ اس ایونٹ میں دنیا بھر کے 16 مختلف ممالک سے 280 ٹیموں نے شرکت کی، جن میں برازیل، جرمنی اور امریکہ جیسے ممالک شامل تھے۔
رائیٹرز کے مطابق مقابلے میں شامل روبوٹس نے مختلف کھیلوں میں حصہ لیا جیسے کہ ٹیبل ٹینس، ٹریک اینڈ فیلڈ، اور دیگر چیلنجز جیسے ادویات کی درجہ بندی، مواد کی منتقلی اور دیگر روبوٹک ٹاسک۔ اس میں 192 یونیورسٹیاں اور 88 نجی ادارے بھی شریک تھے۔
جرمنی کی ’ایچ ٹی ڈبلیو کے روبوٹس‘ فٹبال ٹیم کے رکن میکس پولٹر نے کہا، “’ہم یہاں کھیلنے اور جیتنے کے لیے آئے ہیں، مگر ہماری دلچسپی تحقیق میں بھی ہے۔ اس قسم کے مقابلے ہمیں نئے اور دلچسپ طریقوں کو آزمانے کا موقع فراہم کرتے ہیں۔ اگر کچھ ناکام ہو جائے تو میچ ہارنا افسوسناک ہوتا ہے، مگر یہ بہتر ہے کہ ہم ناکام پروڈکٹ پر بڑی رقم خرچ کرنے سے بچیں۔‘

گیمز کی دلچسپ تفصیلات
چین میں ہونے والے ان روبوٹ گیمز کے ٹکٹ کی قیمت 128 سے 580 یوان تک تھی، جو پاکستانی روپوں میں تقریباً 5 ہزار روپے سے 22 ہزار 800 روپے تک بنتی ہے۔ اس ایونٹ میں سب سے دلچسپ مقابلہ فٹبال کا تھا، جس میں کئی روبوٹس دوڑتے ہوئے یا آپس میں ٹکرا کر گر گئے۔ ایک فٹبال میچ میں چار روبوٹس آپس میں ٹکرا کر گر پڑے، جب کہ 1500 میٹر کی دوڑ میں ایک روبوٹ تیز رفتار میں دوڑتے ہوئے اچانک گر گیا۔

جو بات سب سے زیادہ دلچسپ ہے وہ یہ ہے کہ بیشتر روبوٹس نے اپنے مسائل کو خود ہی حل کیا اور دوبارہ کھیل میں واپس آ گئے۔ منتظمین کے مطابق، یہ گیمز روبوٹکس کی عملی ایپلیکیشنز کے لیے ڈیٹا اکٹھا کرنے کا ایک قیمتی موقع فراہم کرتی ہیں، جیسے کہ فیکٹری کی ورکنگ پروسیس میں روبوٹ کی ہم آہنگی اور تعاون کی تربیت۔

یہ کھیل روبوٹس کی ہم آہنگی اور ان کی صلاحیتوں کو بڑھانے میں مددگار ثابت ہو سکتے ہیں، جو خاص طور پر فیکٹری کے کاموں میں روبوٹ کو ایک دوسرے کے ساتھ مل کر کام کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔