پاکستان کے صوبہ پنجاب میں سیلاب نے بڑے پیمانے پر تباہی مچائی ہے جس کے بعد خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے بھارت کے دوبارہ پانی چھوڑنے پر پنجاب میں پہلے سے زیادہ سیلابی صورتحال کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔ سیلاب کا رخ دریائے سندھ کی جانب ہونے پر بڑا نقصان متوقع ہے۔
صرف پاکستان کے پنجاب میں ہی نہیں بلکہ بھارتی پنجاب میں بھی اونچے درجے کے سیلاب نے معمولات زندگی درہم برہم کردی ہے۔ اسی طرح گزشتہ روز افغانستان میں آنے والے تباہ کن زلزلے میں 800 سے زائد افراد جاں بحق ہوئے جس پر یہ کہنا درست ہوگا کہ جنوبی ایشیائی خطہ اس وقت قدرتی آفات سے بری طرح متاثر ہے۔
پنجاب میں سیلاب اس وقت کس مقام پر ہے؟
وزیر اطلاعات پنجاب عظمیٰ بخاری نے سیلاب کی صورتحال سے متعلق آج لاہور میں پریس کانفرنس میں بتایا ہے کہ دریائے چناب میں ہیڈ تریموں (Trimmu Barrage) سے پانی کا بڑا ریلا گزر رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہیڈ تریموں پر اس وقت پانی کا سب سے زیادہ ہے جبکہ سیلاب ہیڈ محمد والا پہنچنے والا ہے۔
ڈائریکٹر جنرل پرویشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (پی ڈی ایم اے) عرفان علی کاٹھیا نے کہا ہے کہ دریائے ستلج میں اونچے درجے کا سیلاب متوقع ہے جبکہ دریائے چناب سے سیلاب ہیڈ تریموں سے منگل کی شام ملتان پہنچے گا۔
پی ڈی ایم اے کے مطابق امکان ہے کہ 4 سے 5 ستمبر کو یہ سندھ میں داخل ہو جائے گا۔ حکام کا کہنا ہے کہ سیلاب کی کڑی نگرانی کی جا رہی ہے اور جہاں جہاں سے یہ سیلاب گزرے گا وہاں تمام احتیاطی تدابیر اپنائی جائیں گی۔

پرویشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی کی رپورٹ کے مطابق سیلاب سے اب تک 3243 موضع جات اور دیہات متاثر ہوچکے ہیں جبکہ ابھی تک 24 لاکھ 52 ہزار 185 لوگ متاثر ہوچکے ہیں۔
پنجاب بھر کے سیلاب متاثرین کے لیے ان کے گھروں کے قریب ٹینٹ سٹی کا اہتمام کیا گیا گیا ہے۔ حکام کے مطابق پانچ دریاؤں میں طغیانی سے پنجاب کے 32 اضلاع میں ہزاروں گاؤں متاثر ہوئے جہاں تین ہزار سے زائد ریسکیو ورکرز اور 800 سے زائد بوٹس آپریشن میں مصروف ہیں۔
سیلابی ریلوں کی آمد سے قبل نو لاکھ 18 ہزار افراد اور چھ لاکھ 11 ہزار سے زائد جانور بھی محفوظ مقام پر منتقل کئے گئے ہیں۔ گذشتہ چوبیس گھنٹوں کے دوران پنجاب میں 21 ہزار 620 افراد کا محفوظ انخلا ممکن بنایا گیا ہے۔
بھارت سے آنے والے دریا کہاں ملتے ہیں؟
بھارت سے آنے والے پانچ دریاؤں میں سندھ طاس نظام کے ستلج، بیاس، راوی، جہلم اور چناب شامل ہیں، یہ پنجند کے مقام پر اکٹھے ہوکر دریائے پنجند بناتے ہیں، جو چند فاصلے کے بعد دریائے سندھ میں شامل ہو جاتا ہے۔
دریائے سندھ کی شروعات تبت کی ایک جھیل مانسرور کے قریب سے ہوتی ہے۔ پھر دریائے سندھ مقبوضہ کشمیر سے ہوتا ہوا گلگت بلتستان کے ضلع اسکردو، پرتاب پل سے بشام میں خیبر پختونخوا کی حدود میں داخل ہوتا ہے۔
کے پی پہنچنے کے بعد یہ تربیلا ڈیم پہنچتا ہے جہاں دریائے کابل کو ساتھ ملانے کے بعد کالا باغ سے ہوتا ہوا چشمہ بیراج اوت اور تونسہ بیراج کے راستے سرکی پہنچتا ہے، جہاں پانچوں دریا ستلج، بیاس، راوی، چناب اور ستلج دریائے پنجند کی شکل میں 71 کلو میٹر کا فاصلہ طے کرنے کے بعد مٹھن کوٹ’’ کے مقام پر دریائے سندھ میں شامل ہوتے ہیں۔
اس کے بعد یہ گدو بیراج اور سکھر بیراج سے ہوتا ہوا کوٹری کے راستے 3180 کلو میٹر کا سفر طے کر کے بحیرہ عرب میں جا گرتا ہے۔
سندھ میں سیلاب کب داخل ہوگا؟
پنجاب کے بعد سندھ میں بھی سیلابی صورتحال کا خطرہ منڈلا رہا ہے جس پر صوبائی حکومت کا کہنا ہے کہ وہ اس قدرتی آفات سے نمٹنے کے لیے تیار ہیں۔
وزیر اعلی سندھ مراد علی شاه نے کہا ہے کہ (نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی) این ڈی ایم اے کے مطابق آٹھ سے گیارہ لاکھ کیوسک پانی سندھ میں داخل ہوگا۔ ہماری پہلی ترجیح انسانی جانوں کو بچانا اور اس کے بعد مال مویشی کو بچانا ہے۔
مراد علی شاہ کا کہنا تھا کہ بھارت کی جانب سے چھوڑا گیا 12 سے 13 لاکھ کیوسک پانی گڈو بیراج تک پہنچنے کا خدشہ ہے، 5.5 لاکھ کیوسک پانی پہلے ہی بغیر کسی نقصان کے سکھر اور کوٹری بیراج سے گزر چکا ہے۔
چیئرمین این ڈی ایم اے لیفٹیننٹ جنرل انعام حیدر بھی سندھ میں سیلاب کے آنے کا خدشہ ظاہر کرچکے ہیں۔ دو روز قبل اسلام آباد میں میڈیا سے بریفنگ میں ان کا کہنا تھا کہ دریائے چناب، راوی اور ستلج میں پانی کا دباؤ بدستور موجود ہے، امکان ہے 4 سے 5 ستمبر تک گدو اور سکھر بیراج کی جانب پانی کا بڑا ریلا پہنچے گا، جہاں یہ کم سے کم 7 سے 8 اور زیادہ سے زیادہ 12 سے 13 لاکھ کیوسک تک ہو سکتا ہے۔