دوحہ میں ہونے والے اس اجلاس میں شریک عرب ممالک کے سربراہوں نے حسب سابق گرم جوش تقاریر کیں اور اسرائیل کے خلاف خوب دل کی بھڑاس نکالی۔ مظلوم فلسطینیوں پر ڈھائے جانے والے مظالم سے لے کر نیتن یاہو کے جنگی جرائم تک کا احاطہ کرتے ہوئے عرب سربراہوں نے اسرائیل کے تمام جارحانہ اقدامات اور اس کے مستقبل کے خوف ناک عزائم کی پرزور الفاظ میں بھرپور مذمت کرتے ہوئے اسرائیل اور اس کے سرپرست اعلیٰ امریکا پر واضح کیا کہ آیندہ اگر اسرائیل نے کسی عرب ملک پر جارحیت کا ارتکاب کیا تو اس کا سخت جواب دیا جائے گا۔
اس ضمن میں عرب سربراہی اجلاس کا جو اعلامیہ جاری کیا گیا ہے، اس میں بتایا گیا ہے کہ قطر پر حملہ کر کے اسرائیل نے تمام ریڈ لائن کراس کر لی ہیں اسے اب کٹہرے میں لانا ہوگا۔ اعلامیے میں تمام ریاستوں پر زور دیا گیا ہے کہ وہ فلسطینی عوام کے خلاف اسرائیلی جارحیت کو روکنے کے لیے تمام موثر قانونی اقدامات اٹھائیں جن میں سرفہرست سفارتی اور اقتصادی تعلقات پر نظرثانی کرنا اور اس کے خلاف قانونی کارروائی شروع کرنا شامل ہے۔
رکن ممالک میں اس بات پر اتفاق رائے پایا گیا ہے کہ اقوام متحدہ میں اسرائیل کی رکنیت ختم کرانے کے لیے مشترکہ جدوجہد کی جائے گی۔ اسرائیلی جنگی جرائم روکنے کے لیے عرب اسلامی ٹاسک فورس کے قیام کی بھی تجویز اعلامیے کا حصہ ہے۔
عرب سربراہی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم پاکستان میاں شہباز شریف نے کہا کہ پاکستان قطر کے ساتھ کھڑا ہے، ہمیں خاموش رہنے کے بجائے متحد ہونا پڑے گا اور اگر آج ہم نے ایسا نہ کیا تو اسرائیلی بربریت نہیں رکے گی۔ وزیر اعظم نے اسرائیل کے خلاف عرب ملکوں کی ٹاسک فورس کے قیام کی تجویز کی حمایت کرتے ہوئے اقوام متحدہ میں اسرائیل کی رکنیت ختم کرنے کی تجویز کو بھی صائب قرار دیا۔ امیر قطر شیخ تمیم بن حمدالثانی نے کہا کہ گریٹر اسرائیل کا ایجنڈا عالمی امن کے لیے شدید خطرہ ہے۔ اسرائیلی جارحیت کا مقصد غزہ مذاکرات کو سبوتاژ کرنا ہے۔
فلسطینی صدر محمد عباس کا کہنا تھا کہ صورتحال کی نزاکت اور سنگینی کا تقاضا ہے کہ فلسطینیوں کی نسل کشی روکنا اور وہاں فوری امداد کی فراہمی ناگزیر ہو چکی ہے۔ اسلامی تعاون تنظیم کے جنرل سیکریٹری جنرل حسین طہٰ نے قطر پر اسرائیلی حملے کی مذمت کرتے ہوئے بین الاقوامی برادری سے مطالبہ کیا کہ وہ اپنی ذمے داریوں کو پورا کرے تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ اسرائیل کو اس کے تمام جرائم کا جواب دہ ٹھہرایا جائے۔
سوال یہ ہے کہ کیا عرب سربراہی اجلاس میں جو تجاویز اعلامیے کی شکل میں سامنے آئی ہیں، ان پر عمل درآمد کے لیے آنے والے دنوں میں کیا اقدامات اٹھائے جائیں گے اور اس کے کیا نتائج برآمد ہوں گے۔ اگر آپ ماضی قریب و بعید پر نظر ڈالیں تو معلوم ہوگا کہ فلسطین اور لبنان ایک سے زائد مرتبہ اسرائیلی جارحیت کا نشانہ بنتے رہے ہیں اور درجنوں مرتبہ او آئی سی کا اجلاس منعقد کیا گیا۔
اسرائیل کے خلاف عرب سربراہوں نے پرجوش تقاریر کیں اور اسرائیل کے خلاف اقدامات کے اعلانات بھی کیے گئے، لیکن بات نشستند، گفتند، برخاستند سے آگے کچھ نہ بڑھ سکی اور اسرائیل نے اپنے مذموم مقاصد کی تکمیل کے لیے امریکی آشیرباد سے فلسطین کے خلاف جارحیت کا سلسلہ جاری رکھا۔ ابھی ایک طرف عربوں کے ہنگامی سربراہی اجلاس کی گونج ختم بھی نہ ہوئی تھی کہ اسرائیل نے غزہ شہر کے مرکز میں قدم رکھ دیے۔
فضائی و زمینی حملہ کرکے صہیونی فوج نے غزہ سٹی کے باسیوں کو فوری طور پر شہر خالی کرنے کی دھمکی دے کر انھیں بے دخل کرنا شروع کر دیا۔ ایک اخباری اطلاع کے مطابق تقریباً 40 فی صد فلسطینی باشندوں کو جنوب کی طرف دھکیل دیا گیا ہے اور شہر خالی کروانا شروع کر دیا ہے۔ امریکی صدر ٹرمپ نے دھمکی دی ہے کہ اگر حماس نے قیدیوں کو ڈھال بنایا تو وہ مصیبت میں پڑ جائے گی۔
اقوام متحدہ سمیت یورپی یونین، برطانیہ اور جرمنی نے اسرائیل کے اس جنگی اقدام کی سخت الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے فوری جنگ بندی کا مطالبہ کیا ہے۔ 57 اسلامی ممالک کے لیے اسرائیل کے فلسطین پر قبضے کے ممکنہ خطرناک عزائم اور بڑھتے ہوئے توسیع پسندانہ گریٹر اسرائیل قدم کے آگے ہمالیہ جیسی رکاوٹ کھڑی کرنا ہوگی۔ غزہ کے معصوم، بھوک و پیاس سے سسکتے بچوں کی پکار کو سننا ہوگا۔
سعودی عرب اور پاکستان کے درمیان حالیہ دفاعی معاہدہ اسلامی دنیا کے لیے ایک بڑی خبر ہے۔ کیا سعودی عرب اور پاکستان مل کر فلسطین کو اسرائیلی مظالم سے نجات دلانے میں کوئی سرگرم کردار ادا کر سکیں گے؟ اس کا جواب آنے والا وقت دے گا۔