وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو گورننس کے نظام کو موثر بنانے کے لیے سخت گیر اقدامات کو اپنی پہلی ترجیح بنانا ہوگا۔ گورننس کے نظام میں اصلاحات اور بہتری لائے بغیر ہم اپنی معاشی ترقی کے اہداف مکمل نہیں کرسکیں گے۔لیکن سوال یہ ہے کہ گورننس کے نظام کی اصلاح اور جدید ترین یا سخت گیر سطح کی اصلاحات کے لیے بلی کے گلے میں گھنٹی کون باندھے گا۔کیونکہ ہماری وفاقی اور صوبائی حکومتیں کسی بھی صورت میں گورننس کے نظام کی اصلاح کے تیار نہیں ہیں اور نہ ہی اس نظام میں موجود غلطیوں سے سیکھ کر آگے بڑھنا ان کے ایجنڈے کا حصہ ہے۔
18ویں ترمیم کے بعد وفاقی حکومت کے مقابلے میں گورننس کے نظام کو موثر اور جدید تقاضوں سمیت عوامی مفادات کے تابع کرنے کی اہم اور بڑی ذمے داری صوبائی حکومتوں پر عائد ہوتی ہے ۔لیکن صوبائی حکومتیں بھی ان معاملات میں نہ صرف سیاسی کوتاہی کی مرتکب ہورہی ہیں بلکہ انھوں نے بھی صوبائی مرکزیت کا نظام قائم کیا ہوا ہے۔اس نظام کے تحت صوبائی حکومتیں کسی بھی صورت میں اپنے ہی صوبہ میں خود مختار مقامی حکومتوں کے نظام کے خلاف ہیں اور اس نظام کی مضبوطی میں سب سے بڑی رکاوٹ بھی صوبائی حکومتیں ہیں جو سیاسی ،انتظامی اور مالی کنٹرول خود تک محدود رکھنا چاہتی ہیں۔
وفاقی اور صوبائی سطح پر موجود صوبائی حکومتوں کا ایجنڈا گورننس کے نظام کی بہتری کے برعکس نظر آتا ہے ۔صوبائی حکومتوں کا یہ طرز عمل گورننس سے جڑے مسائل کو اور زیادہ خراب کرنے کا سبب بن رہا ہے ۔گورننس کے نظام کی بہتری میں ہمیں جو رابطہ کاری یا مشاورت پر مبنی نظام وفاقی ، صوبائی یا مقامی انتظامی اداروں کے درمیان نظر آنا چاہیے تھا اس کا گہرا فقدان نظر آتا ہے ۔اس کی بجائے ہمیں ایک دوسرے پر الزام تراشیوں یا ایک دوسرے پر ناکامی کا بوجھ ڈالنے کے عمل کو زیادہ غلبہ نظر آتا ہے ۔
وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے طرز عمل نے مقامی انتظامی ڈھانچوں کو بری طرح تباہ کیا ہے ۔ ہم ان اداروں کو آئینی اور قانون کی بنیاد پر چلانے کی بجائے اس پورے انتظامی ڈھانچے کو ذاتی و سیاسی مفادات کی بنیاد پر چلارہے ہیں ۔یہ انتظامی ڈھانچے قانون کی حکمرانی کے تابع کم اور افراد یا حکمرانوں کے زیادہ تابع بن کر رہ گئے ہیں جو گورننس کے نظام کو اور زیادہ خراب کرنے کا سبب بن رہا ہے۔
ایک طرف ارکان قومی، صوبائی اور مقامی سیاسی طاقت ور اشرافیہ اور بیورورکریسی کی مداخلت، اقرباپروری اور کرپشن کے نظام نے گورننس کے نظام میں بگاڑ پیدا کردیا ہے ۔سب سے بڑا المیہ قومی ترجیحات کے تعین میں عدم شفافیت پر مبنی نظام ہے جو ظاہر کرتا ہے کہ موجودہ حکمرانی کے نظام کو بنیاد بنا کر ہم اصلاح کا سیاسی راستہ تلاش نہیں کرسکیں گے۔وفاقی ،صوبائی اور مقامی سطح پر وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم اور سالانہ ترقی کے روڈ میپ میں حکمران طبقات اور عوامی ترجیحات میں بڑی واضح خلیج دیکھنے کو ملتی ہے ۔
اس گورننس کے نظام میں کسی بھی سطح پر عوامی مشاورت کا فقدان ہے اور لوگوں کی بنیادی نوعیت کی ضروریات کو مدنظر رکھ کر ہم گورننس کے نظام میں بہتری پیدا کرنے پر کوئی توجہ نہیں دے رہے۔حالیہ سیلاب کے بحران میں ہمیں متاثرہ علاقوں میں صوبائی ، مقامی سیاسی اور انتظامی ڈھانچوں کی ایک مکمل کہانی دیکھنے کا موقع ملا ہے جو ظاہر کرتا ہے کہ ہمارے پاس ان قدرتی آفات سے نمٹنے کی نہ تو پہلے سے کوئی منصوبہ بندی تھی اور نہ ہی ان حالات کو نمٹنے میں ہماری صلاحیت میں شفافیت نظر آتی ہے۔ ہم نے سالانہ بنیادوں پر یا 2015-30تک پائیدار ترقی کے جو اہداف طے کر رکھے ہیں اس میں بھی ہمیں ناکامی کا سامنا ہے ۔یہ ہی وجہ ہے کہ جب عالمی سطح پر موجود ادارے سماجی ترقی کے تناظر میں ہماری عالمی رینکنگ کرتے ہیں تو ہم پچھلی صف میں کھڑے نظر آتے ہیں۔
گورننس کے نظام کی ایک بڑی ناکامی وفاقی، صوبائی اور مقامی سطح پر ایک بڑے انتظامی ڈھانچوں اور اداروں کی موجودگی ہے ۔ پہلے سے موجود اداروں کی موجودگی اور ان کی کارکردگی کو موثر بنانے کی بجائے ان اداروں کے مقابلے میں نئے اداروں کی تشکیل پر حکومتی وسائل کا ضیاع ظاہر کرتا ہے کہ ہمارے پاس عملی سطح پر گورننس کے نظام کی اصلاح کا کوئی مربوط ایجنڈا نہیں ہے۔اسی طرح سیاسی سطح پر وفاقی، صوبائی حکومتوں میں وزرا ،مشیروں اور معاونین کی فوج در فوج اور پھر ان کے لیے بڑی مراعات نے اقرباپروری کا بدنما منظر پیش کیا ہوا ہے۔
جو ترقیاتی منصوبے اور ایجنڈا ہے اس میں ہمیں وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے بڑے بڑے تضادات نمایاں طور پر دیکھنے کو ملتے ہیں۔ایسے لگتا ہے کہ فریق اپنی اپنی مرضی کی بنیاد پر آگے بڑھ رہے ہیں اور کوئی کسی کے ساتھ مل کر مشترکہ حکمت عملی اور ترجیحات کے تعین کے لیے تیار نہیں ۔یہ ہی وجہ ہے کہ ہمارا گورننس کا نظام ایک مضبوط اور مربوط ڈھانچے کی بنیاد پر نہیں کھڑا اور اس میں آج کے جدید تقاضوں کے مطابق چلانے کی کوئی بڑی صلاحیت بھی موجود نہیں ہے یا ان کو جدید تقاضوں کا ادراک بھی نہیں ہے کہ ہمیں عوامی مفادات کی بنیاد پر گورننس کے نظام کو کیسے چلانا ہے۔ یہ ہی وجہ ہے کہ ہمیں ریاست، حکومت اور عوام کے درمیان گورننس کے نظام میں جہاں ٹکراو نظر آتا ہے وہیں ایک بڑی خلیج بھی دیکھنے کو مل رہی ہے۔یہ جو ہمارا روائتی سیاسی اورانتظامی ڈھانچہ ہے اپنی افادیت کھو بیٹھا ہے اور ایک بڑی تبدیلی یا سخت گیر اقدامات کا تقاضا کرتا ہے ۔
اصل چیلنج یہ ہے کہ ریاست اور عوام کے مفادات کو بنیاد بنا کر نظام کی درستگی یا اس میں اصلاحات کے لیے تیار نہیں کیونکہ ہم ترقی کو محدود طبقوں یا طبقاتی تقسیم کی بنیاد پر دیکھ رہے ہیں ۔یعنی حکمران طبقہ جب نظام میں اصلاحات کرتا ہے تو اس کی توجہ کا عملًا بڑا مرکز عوام نہیں بلکہ طاقت ور طبقات کے مفادات کا تحفظ کرنا ہوتا ہے ۔یہ ہی وجہ ہے عام آدمی کو اس طاقت ور حکمران طبقات کی اصلاحات کے کھیل میں بھی اپنا استحصال نظر آتا ہے ۔
ہم عالمی دنیا اور عالمی اداروں سے جو بڑی مالیاتی امداد یا منصوبے عام آدمی کی حالت کو بدلنے کے لیے لیتے ہیں ان کا بھی احتساب ہوناچاہیے کہ یہ عالمی امداد کہاں گئی،کس پر خرچ ہوئی اور کس نے اس میں مالیاتی کرپشن کی، یہ حقایق بھی عوام کے پاس آنے چاہیے۔اس لیے اگر واقعی ہم نے حکومت کے نظام میں اچھی حکمرانی یا گورننس کے نظام کو اپنی ترجیحات کا حصہ بنانا ہے تو یہ عمل روائتی طور طریقوں سے ممکن نہیں ہوگا ۔یہ جو ہمیں گورننس کے نظام کی سطح پر غیر معمولی حالات کا سامنا ہے اس کا علاج بھی غیر معمولی اور سخت گیر تقاضوں کے مطابق ہی ممکن ہوگا۔لیکن اس میں سب سے بڑی رکاوٹ اس ملک کی طاقت ور اشرافیہ ہے جو خود کو عقل کل سمجھتی ہے۔