وزارتِ خارجہ نے حالیہ اقوام متحدہ سلامتی کونسل کے اجلاس میں وزیر دفاع کے پیچھے بیٹھی ایک خاتون سے متعلق سوالات کا نوٹس لے لیا اور اپنے بیان میں بتایا کہ وزیر دفاع خواجہ آصف کے پیچھے بیٹھی خاتون کا باضابطہ اجازت نامہ نہیں تھا ۔ خاتون کا نام پاکستان کے وفد کی فہرست میں شامل نہیں تھا۔
The Ministry of Foreign Affairs has noted queries regarding the seating of a certain individual behind the Defence Minister at a recent meeting of the UNSC. To clarify, the individual in question was not listed in the official letter of credence for the Pakistan delegation to the… https://t.co/60w0te9hLX
— Ministry of Foreign Affairs – Pakistan (@ForeignOfficePk) September 26, 2025
دفتر خارجہ سے جاری بیان کے مطابق جس شخصیت کے بارے میں سوالات اٹھائے جا رہے ہیں، وہ پاکستان کے وفد کے لیے 80ویں اقوام متحدہ جنرل اسمبلی (یو این جی اے) اجلاس کے لیے نائب وزیراعظم و وزیر خارجہ کی جانب سے دستخط شدہ سرکاری لیٹر آف کریڈنس میں شامل نہیں تھیں۔
ترجمان نے واضح کیا کہ وہ شخصیت پاکستانی وفد کی فہرست میں شامل نہیں تھیں اور ان کی وزیرِ دفاع کے پیچھے نشست نائب وزیراعظم/وزیر خارجہ کی منظوری سے نہیں تھی۔
وزیر دفاع کی وضاحت
قبل ازیں وزیر دفاع خواجہ آصف نے اپنے ٹوئٹر بیان میں کہا کہ سلامتی کونسل میں یہ تقریر وزیر اعظم کیونکہ مصروف تھے، اس لیے ان کی جگہ یہ تقریر میں نے کی۔ یہ خاتون یا کس نے میرے پیچھے بیٹھنا ہے دفتر خارجہ کی صوابدید و اختیار تھا اور ہے۔
انہوں نے کہا کہ فلسطین کے مسئلہ کے ساتھ میرا 60 سال سے جذباتی لگاؤ اور کمٹمنٹ ہے۔ ابو ظبی بینک میں ملازمت کے دوران فلسطینی دوست اور کولیگ بنے اور آج بھی ان کے ساتھ رابطہ ہے۔ غزہ پر میرے خیالات واضح ہیں اور میں ان کا برملا اظہار کرتا ہوں۔
سلامتی کونسل میں یہ تقریر وزیر اعظم کیونکہ مصروف تھے اسلئے انکی جگہ یہ تقریر میں نے کی۔ یہ خاتون یا کس نے میرے پیچھے بیٹھنا ھے دفتر خارجہ کی صوابدید و اختیار تھا اور ھے۰ فلسطین کے مسئلہ کے ساتھ میرا 60 سال سے جذباتی لگاؤ اور کمٹمنٹ ھے۔ ابو ظہبی بینک میں ملازمت کے دوران فلسطینی… pic.twitter.com/FkyCHz4fYY
— Khawaja M. Asif (@KhawajaMAsif) September 26, 2025
خواجہ آصف نے کہا کہ اسرائیل اور صہیونیت پر میرے خیالات نفرت کے سوا اور کچھ نہیں ۔ یہ خاتون کون ہیں، وفد میں ہمارے ساتھ کیوں ہیں اور ان کو میرے پیچھے کیوں بٹھایا گیا، ان سوالوں کا جواب دفتر خارجہ ہی دے سکتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ میرے لیے مناسب نہیں کہ ان کی جانب سے جواب دوں۔ میرے ٹوئٹر اکاؤنٹ کی ہسٹری اس بات کی شہادت ہے کہ میرا فلسطین کے ساتھ رشتہ ایمان کا حصہ ہے۔