ٹرمپ کے مجوزہ 20 نکاتی ’غزہ جنگ بندی منصوبے‘ میں کیا ہے؟ تفصیلات سامنے آگئیں

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے گزشتہ روز ایک غزہ میں جنگ بندی کے لیے ایک 20 نکاتی منصوبہ پیش کیا ہے۔ اس منصوبے کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ اگر یہ قبول ہو جائے تو اسرائیل کی غزہ پر جنگ فوراً رک سکتی ہے۔ یہ جنگ اب تک 66 ہزار سے زائد فلسطینیوں کی جان لے چکی ہے اور صیہونی افواج نے غزہ کو کھنڈرات میں بدل دیا ہے۔

منصوبے کے مطابق اگر دونوں فریق ان 20 نکات پر راضی ہو جائیں تو جنگ فوراً بند ہو جائے گی، غزہ میں موجود تمام یرغمالیوں کو، چاہے زندہ ہوں یا لاشوں کی صورت میں، 72 گھنٹوں کے اندر واپس کر دیا جائے گا اور فلسطینی قیدیوں کو بھی رہا کر دیا جائے گا۔ غزہ کی حکومت عارضی طور پر ایک فلسطینی ٹیکنوکریٹک (ماہرانہ مگر غیر سیاسی) حکومت کے سپرد ہوگی، جس میں حماس کا کوئی کردار نہیں ہوگا اور اسرائیل غزہ کو ضم نہیں کرے گا۔

اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو نے صدر ٹرمپ کے اس منصوبے کو قبول کر لیا ہے۔

حماس نے غزہ کی حکمرانی کے لیے کسی غیر ملکی ادارے کو قبول کرنے سے انکار کردیا

ٹرمپ کے مجوزہ 20 نکاتی منصوبے کی تفصیل

1۔ غزہ کو دہشت گردی سے پاک اور پرامن خطہ بنایا جائے گا تاکہ وہ اپنے پڑوسیوں کے لیے خطرہ نہ بنے۔

2۔ غزہ کو دوبارہ تعمیر کیا جائے گا تاکہ وہاں کے لوگ جو برسوں سے مصیبتیں جھیل رہے ہیں سکون کا سانس لے سکیں۔

3۔ اگر دونوں فریق راضی ہو جائیں تو جنگ فوری طور پر بند ہوگی، اسرائیلی فوج پیچھے ہٹے گی، اس دوران کوئی فضائی، زمینی یا آرٹرلی حملہ نہیں ہوگا۔

4۔ اسرائیل کی جانب سے اس معاہدے کے اعلان کے 72 گھنٹے بعد تمام یرغمالیوں کو واپس کیا جائے گا۔

5۔ یرغمالیوں کی رہائی کے بعد اسرائیل 250 عمر قید پانے والے قیدیوں اور یکم نومبر 2023 کے بعد گرفتار ہونے والے 1700 فلسطینیوں کو رہا کرے گا، جن میں خواتین اور بچے بھی شامل ہوں گے۔ اگر کسی اسرائیلی یرغمالی کی لاش ملتی ہے تو بدلے میں 15 فلسطینیوں کی لاشیں واپس کی جائیں گی۔

6۔ یرغمالیوں کی رہائی کے بعد وہ حماس ارکان جو ہتھیار ڈال کر پرامن رہنے کا وعدہ کریں گے انہیں عام معافی دی جائے گی، اور جو لوگ غزہ چھوڑنا چاہیں گے انہیں محفوظ راستہ دیا جائے گا۔

7۔ اس معاہدے کے فوراً بعد غزہ میں مکمل انسانی امداد پہنچائی جائے گی، جس میں پانی، بجلی، اسپتال، بیکریاں، سڑکوں کی بحالی اور ملبہ ہٹانے کے لیے ضروری سامان شامل ہوگا۔

8۔ امداد کی تقسیم اقوام متحدہ، ریڈ کریسنٹ اور دیگر غیر جانبدار عالمی ادارے کریں گے۔ اس کے لیے رفح بارڈر دونوں طرف کھولا جائے گا۔

9۔ غزہ کی عارضی حکومت ایک غیر سیاسی فلسطینی کمیٹی چلائے گی جس میں مقامی ماہرین اور بین الاقوامی ماہرین شامل ہوں گے۔ اس پر نگرانی ایک ’’بورڈ آف پیس‘‘ کرے گا جس کی سربراہی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کریں گے، جبکہ سابق برطانوی وزیراعظم ٹونی بلیئر اور دیگر عالمی رہنما بھی شامل ہوں گے۔ یہ ادارہ غزہ کی تعمیر نو کا فریم ورک بنائے گا اور مالی وسائل مہیا کرے گا۔

10۔ غزہ کی تعمیر نو کے لیے ماہرین کی ٹیم بنے گی جو مشرق وسطیٰ کے جدید شہروں کی طرز پر منصوبے تجویز کرے گی تاکہ روزگار اور سرمایہ کاری کے مواقع پیدا ہوں۔

11۔ غزہ میں ایک خصوصی معاشی زون بنایا جائے گا، جس کے لیے مختلف ملکوں سے تجارتی مراعات پر بات چیت ہوگی۔

12۔ کسی کو زبردستی غزہ سے نکالا نہیں جائے گا، جو لوگ جانا چاہیں گے جا سکیں گے اور واپسی بھی کر سکیں گے۔

13۔ حماس یا کوئی بھی مسلح گروہ غزہ کی حکومت میں شامل نہیں ہوگا۔ تمام سرنگیں، اسلحہ ساز فیکٹریاں اور عسکری ڈھانچے ختم کر دیے جائیں گے۔ اسلحہ جمع کرنے اور تباہ کرنے کا عمل عالمی ماہرین کی نگرانی میں ہوگا اور ایک ’’بائے بیک‘‘ پروگرام کے ذریعے ہتھیار مستقل طور پر ختم کیے جائیں گے۔

14۔ علاقائی شراکت دار یہ گارنٹی دیں گے کہ حماس اور دیگر گروہ اپنے وعدوں پر قائم رہیں۔

15۔ امریکا عرب اور عالمی اتحادیوں کے ساتھ مل کر ایک ’’انٹرنیشنل اسٹیبلائزیشن فورس‘‘ (ISF) بنائے گا جو غزہ میں تعینات ہوگی، فلسطینی پولیس کو تربیت دے گی اور سیکیورٹی برقرار رکھے گی۔

16۔ اسرائیل غزہ پر قبضہ یا الحاق نہیں کرے گا۔ جیسے جیسے آئی ایس ایف کنٹرول سنبھالے گی اور حالات مستحکم ہوں گے، اسرائیلی فوج مرحلہ وار پیچھے ہٹ جائے گی۔

17۔ اگر حماس اس منصوبے کو مسترد کرے یا تاخیر کرے تو امداد اور تعمیر نو صرف اُن علاقوں میں ہوگی جو اسرائیلی فوج آئی ایس ایف کے حوالے کرے گی۔

نیتن یاہو کی یرغمالیوں کی رہائی کے بدلے حماس کو معافی اور محفوظ راستہ دینے کی پیشکش

18۔ ایک ’’بین المذاہب ڈائیلاگ‘‘ شروع کیا جائے گا تاکہ فلسطینیوں اور اسرائیلیوں کے بیچ ذہن سازی ہو اور پرامن بقائے باہمی کو فروغ ملے۔

19۔ جب تک فلسطینی اتھارٹی اپنے اصلاحاتی پروگرام مکمل نہیں کرتی، غزہ کا انتظام ’’بورڈ آف پیس‘‘ کے تحت رہے گا۔ اس کے بعد ایک مؤثر فلسطینی حکومت کو غزہ کا کنٹرول دیا جائے گا۔

20۔ امریکا اسرائیل اور فلسطینی قیادت کے درمیان براہ راست بات چیت کرائے گا تاکہ ایک سیاسی حل اور فلسطینی ریاست کی راہ ہموار ہو سکے، جو فلسطینی عوام کی دیرینہ خواہش ہے۔

Similar Posts