امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے غزہ منصوبے کو قبول کرنے کے بعد فلسطینی تنظیم حماس نے باضابطہ ردعمل جمع کروا دیا ہے، جس میں تنظیم نے غزہ کے انتظامی امور فلسطینی ٹیکنوکریٹس کے حوالے کرنے اور تمام اسرائیلی قیدیوں کو رہا کرنے پر آمادگی ظاہر کی ہے۔ وہیں حماس کے اس اقدام پر مختلف ممالک کی طرف سے رد عمل سامنے آیا ہے جس میں انہوں نے تنظیم کے اس فیصلے کا خیر مقدم کیا ہے۔
الجزیرہ کے مطابق حماس کے اس بیان میں تنظیم کے اسلحہ چھوڑنے کے معاملے کو شامل نہیں کیا گیا ہے، تاہم تنظیم نے کہا ہے کہ وہ فوری طور پر ثالثوں کے ذریعے امن مذاکرات میں شامل ہونے کو تیار ہیں۔
حماس نے اپنے بیان میں کہا کہ انہوں نے اپنی قیادت، فلسطینی دھڑوں، فورسز اور ثالثوں سے مشاورت کی، تمام اسرائیلی یرغمالیوں کو رہا کرنے کو تیار ہیں، ہتھیار مستقبل کے فلسطینی حکمرانوں کے حوالے ہوں گے
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے حماس کے اس اعلان پر ویڈیو خطاب میں اسے ایک بے مثال پیش رفت قرار دیا ہے، لیکن ساتھ ہی کہا کہ حتمی فیصلے کو ٹھوس بنیادوں پر لانا نہایت ضروری ہے۔
ٹرمپ نے اپنے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ٹروتھ سوشل پر جاری ایک پیغام میں کہا کہ انہیں یقین ہے کہ حماس ”پائیدار امن“ کے لیے تیار ہے، اور انہوں نے اسرائیل سے مطالبہ کیا کہ وہ ”فوری طور پر غزہ پر بمباری بند کرے“۔
حماس کے ردعمل پر عالمی رہنماؤں کا خیر مقدم
ٹرمپ کے امن منصوبے پر حماس کے مثبت ردعمل کے بعد دنیا بھر کے رہنماؤں نے اس پیش رفت پر اپنے بیانات جاری کیے ہیں، جن میں اس منصوبے کی حمایت اور فوری جنگ بندی پر زور دیا گیا ہے۔
ادھر حماس کی امن منصوبے کی قبولیت کے بعد قطر، مصر اور اقوام متحدہ کی جانب سے فیصلے کا خیرمقدم کیا گیا ہے۔
قطر نے کہا ہے کہ غزہ جنگ کے خاتمے کیلئے مصر اور امریکا کے ساتھ رابطہ کاری شروع کردی ہے۔
مصر نے کہا ہے کہ حماس کے ردعمل کے بعد مثبت پیشرفت کی امید ہے، امریکا، عرب اور یورپی ممالک کے ساتھ مل کر کوششیں کریں گے، مستقل جنگ بندی تک پہنچنے کے لیے کوششیں کی جائیں گی۔
اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتریس کی جانب سے بھی حماس کے بیان کا خیرمقدم کیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا ہے کہ ٹرمپ پلان کے جواب میں حماس کا بیان حوصلہ افزا ہے، تمام فریقین غزہ جنگ ختم کرنے کے موقع سے فائدہ اُٹھائیں۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ میں ثالثی کے انمول کام کے لیے قطر اور مصر کا بھی شکریہ ادا کرتا ہوں۔
اٹلی کی وزیرِاعظم جیورجیا میلونی نے صدر ٹرمپ کی مشرقِ وسطیٰ میں امن قائم کرنے کی کوششوں کی بھرپور حمایت کا اعادہ کیا۔ انہوں نے کہا، ”اب سب کی ترجیح ایک ایسی جنگ بندی ہونی چاہیے جو تمام یرغمالیوں کی فوری رہائی کی جانب لے جائے۔“
برطانوی وزیرِاعظم کیئر اسٹارمر نے کہا کہ حماس کی جانب سے امریکی امن منصوبے کی قبولیت ”ایک اہم پیش رفت“ ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ صدر ٹرمپ کا منصوبہ ”ہمیں امن کے قریب تر لے آیا ہے، جتنا پہلے کبھی نہ تھا۔“
آسٹریلوی وزیرِاعظم انتھونی البانیز نے کہا کہ کینبرا غزہ میں امن کے لیے صدر ٹرمپ کے منصوبے میں پیش رفت کا خیرمقدم کرتا ہے۔ انہوں نے حماس سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ ”منصوبے سے اتفاق کرے، ہتھیار ڈالے اور باقی تمام یرغمالیوں کو فوری طور پر رہا کرے۔“
کولمبیا کے صدر گوستاوو پیٹرو نے کہا کہ وہ ”اس بار ٹرمپ سے متفق ہیں“، اور غزہ میں ”نسل کشی کے خاتمے“ کا مطالبہ کیا۔ پیٹرو نے مزید کہا، ”اگر ٹرمپ فلسطین پر ظلم ختم کرنے کے لیے اپنی فوج روانہ کرتے ہیں تو وہ فوج کولمبیا کی فوج کے ساتھ ہو گی۔“
ترک صدر رجب طیب اردوان نے حماس کے ردعمل کو ”تعمیری اور پائیدار امن کے حصول کی جانب ایک اہم قدم“ قرار دیا۔ انہوں نے اسرائیل سے مطالبہ کیا کہ وہ ”فوری طور پر اپنے تمام حملے بند کرے“۔
جبکہ فرانسیسی صدر ایمانوئل میکرون نے بھی حماس کے فیصلے کو سراہتے ہوئے ایکس پر پوسٹ میں کہا کہ، ”حماس کی وابستگی بغیر کسی تاخیر کے آگے بڑھائی جانی چاہیے“۔ ان کا کہنا تھا کہ اس وقت “امن کی جانب فیصلہ کن پیش رفت کرنے کا موقع موجود ہے۔
فرانسیسی صدر نے مزید کہا کہ فرانس اقوام متحدہ میں امریکا، اسرائیلیوں اور فلسطینیوں اور اپنے تمام بین الاقوامی شراکت داروں کے ساتھ مل کر اپنا بھرپور کردار ادا کرے گا۔
دوسری جانب، اسرائیل کی جانب سے غزہ پر مہلک بمباری کا سلسلہ جاری ہے۔ طبی ذرائع کے مطابق، جمعے کے روز غزہ کی پٹی میں کم از کم 72 فلسطینی جاں بحق ہوئے۔
اکتوبر 2023 سے جاری اسرائیلی جارحیت میں اب تک 66288 فلسطینی شہید اور 169165 زخمی ہو چکے ہیں
اسرائیل کے مطابق، 7 اکتوبر 2023 کو ہونے والے حملوں میں 1139 افراد ہلاک اور تقریباً 200 کو یرغمال بنایا گیا تھا۔