گلوبل صمود فلوٹیلا میں شامل اطالوی کارکن ٹومی رابنسن نے اسرائیلی قید کے دوران اسلام قبول کرلیا۔ استنبول ائیرپورٹ پر ان کے قریبی ساتھیوں نے خوشی سے گلے لگا کر استقبال کیا اور کئی ساتھی آبدیدہ ہوگئے۔
ترک سماجی کارکن بکیر دیویلی نے بتایا کہ ’ٹومی نے جیل میں اسلام قبول کیا، جب ہم نے گاڑی میں اسے مبارک باد دی تو اسرائیلی پولیس نے فوراً اسے دوبارہ قید خانے میں ڈال دیا تو میں نے کہا کہ تم نے اسلام قبول کرنے کی قیمت صرف دسویں سیکنڈ میں ادا کر دی ٹومی‘۔
خیال رہے کہ اسرائیلی حراست سے رہائی پانے کے بعد گلوبل صمود فلوٹیلا کے 137 سماجی کارکن استنبول پہنچ گئے ہیں۔ ان میں 36 ترک شہریوں کے علاوہ امریکا، برطانیہ، اٹلی، اردن، کویت، لیبیا، الجزائر، موریطانیہ، ملائیشیا، بحرین، مراکش، سوئٹزرلینڈ اور تیونس کے کارکن بھی شامل ہیں۔
صمود فلوٹیلا کے 450 سماجی کارکن اب بھی اسرائیلی حراست میں موجود ہیں جن میں بدستور سابق سینیٹر مشتاق احمد اور دیگر پاکستانی شہری بھی شامل ہیں۔
استنبول پہنچنے والے فلوٹیلا کے شرکا نے اسرائیلی مظالم کا لرزہ خیز آنکھوں دیکھا حال بتاتے ہوئے کہا کہ اسرائیلی فوج نے تمام کارکنوں کے ساتھ جانوروں جیسا سلوک کیا۔
ترک صحافی ایرسن سیلک نے انکشاف کیا کہ اسرائیلی حراست میں صمود فلوٹیلا کے کئی رضاکاروں کو بدترین تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔
ایرسن کے مطابق حراست کے دوران گریٹا تھنبرگ کو زمین پر گھسیٹا گیا، اذیت دی گئی اور زبردستی اسرائیلی پرچم چومنے پر مجبور کیا گیا۔ کم عمر ہونے کے باوجود اس کے ساتھ انتہائی ظالمانہ سلوک کیا گیا۔
اسرائیلی جارحیت اور رکاوٹوں کے باوجود امدادی سامان لے کر ایک اور فلوٹیلا غزہ کی جانب روانہ ہوگیا ہے، ان کشتیوں پر مختلف ممالک کے بین الاقوامی سماجی کارکن سوار ہیں جو فلسطینی عوام کے لیے خوراک، ادویات اور امدادی سامان لے جا رہے ہیں۔
پاکستان سمیت دنیا کے مختلف ممالک میں غزہ فلوٹیلا کی حمایت اور اسرائیل کے مظالم کے خلاف احتجاج کا سلسلہ بھی تاحال جاری ہے۔ شرکا نے فلوٹیلا کے کارکنوں سے اظہارِ یکجہتی کرتے ہوئے عالمی برادری سے فلسطینی عوام کے تحفظ کے لیے فوری اقدامات کا مطالبہ کیا ہے۔