نیتن یاہو نے یورونیوز کو دیے گئے ایک خصوصی انٹرویو میں کہا کہ “ہم نے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے منصوبے کو قبول کرلیا ہے، اب فیصلہ حماس کے ہاتھ میں ہے۔ اگر وہ اس پر عمل کرتی ہے تو امن قائم ہوسکتا ہے، ورنہ اسرائیل کو امریکا کی مکمل حمایت کے ساتھ حماس کے خلاف کارروائی کرنا ہوگی۔”
انہوں نے بتایا کہ منصوبے کے دو اہم حصے ہیں۔ پہلے مرحلے میں تمام یرغمالیوں کی رہائی اور جزوی انخلا شامل ہے، جبکہ دوسرے حصے میں غزہ کو غیر فوجی علاقہ بنانا اور حماس کو غیر مسلح کرنا مقصد ہے۔
نیتن یاہو نے دعویٰ کیا کہ حماس نے اس منصوبے پر نرمی اس لیے دکھائی کیونکہ اسرائیلی فوج نے حالیہ ہفتوں میں غزہ کے مرکزی علاقوں میں بڑی پیش رفت کی ہے۔ ان کے بقول “ہماری کارروائی نے حماس کو احساس دلایا کہ اس کا انجام قریب ہے، اسی دوران صدر ٹرمپ کا امن منصوبہ سامنے آیا جس نے صورتحال کو بہتر سمت دی۔”
اسرائیلی وزیراعظم نے کہا کہ “سب جانتے ہیں کہ حماس دوبارہ غزہ پر حکومت نہیں کر سکتی۔ ہمیں ایک نئی سول انتظامیہ کی ضرورت ہے جو اسرائیل سے دشمنی نہ رکھے بلکہ امن کے ساتھ رہنا چاہے۔”
انہوں نے انکشاف کیا کہ صدر ٹرمپ نے اس مجوزہ سول اتھارٹی کی سربراہی کا عندیہ بھی دیا ہے، جس سے اسرائیل، غزہ اور پورے خطے کے لیے ایک نیا اور پائیدار مستقبل ممکن ہو سکتا ہے۔
نیتن یاہو نے الزام لگایا کہ حماس نے “غزہ کے لیے آنے والے اربوں ڈالر عوامی بہبود پر خرچ کرنے کے بجائے زیر زمین دہشت گرد شہر بنانے پر لگا دیے۔” ان کے بقول “اب خود غزہ کے لوگ حماس کی جابرانہ حکومت کے خلاف ہیں۔”
انہوں نے امید ظاہر کی کہ اگر یہ منصوبہ کامیاب ہوا تو مزید عرب ممالک بھی اسرائیل کے ساتھ امن معاہدے کر سکتے ہیں، جیسے ماضی میں ابراہیم معاہدوں کے تحت کیے گئے تھے۔