اسرائیلی جارحیت کے 2 سال مکمل ہوگئے، اس دوران غزہ کی 3 فیصد آبادی شہید اور 92 فیصد مکانات تباہ کردیے گئے، اسرائیلی فوج کے وحشیانہ حملوں کے دوران اب تک 67 ہزار افراد شہید ہوچکے ہیں اور ہزاروں افراد اب بھی ملبے تلے دبے ہوئے ہیں جب کہ صحافی اور طبی عملہ بھی اسرائیلی درندگی سے محفوظ نہ رہ سکا۔
غزہ میں 7 اکتوبر 2023 کو شروع ہونے والی اسرائیلی جارحیت اور فلسطینیوں کی نسل کشی آج 2 سال بعد بھی جاری ہے۔ اس دوران غزہ پر 2 لاکھ ٹن بارود برسایا جاچکا ہے۔ اس سے قبل ہیروشیما پر 15 ہزار ٹن اور ناگا ساکی پر 21 ہزار ٹن بارود برسایا گیا تھا۔
الجزیرہ کے مطابق 7 اکتوبر 2023 کے بعد دنیا بھر میں ہونے والے تنازعات کے نتیجے میں رپورٹ ہونے والی 4 لاکھ 89 ہزار 500 سے زائد ہلاکتوں میں سے تقریباً 14 فیصد یعنی 66 ہزار 600 سے زائد اموات صرف غزہ میں ریکارڈ کی گئی ہیں۔
یہ انکشاف امریکی تحقیقی ادارے آرمڈ کانفلکٹ لوکیشن اینڈ ایونٹ ڈیٹا پراجیکٹ (اے سی ایل ای ڈی) کی تازہ رپورٹ میں کیا گیا ہے، رپورٹ حماس کے حملوں کے 2 سال بعد جاری کی گئی ہے۔
رپورٹ کے مطابق گزشتہ 2 برس کے دوران غزہ میں 11 ہزار 110 سے زائد فضائی اور ڈرون حملے جب کہ کم از کم 6 ہزار 250 گولہ باری اور توپ خانے کے حملے کیے جا چکے ہیں۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ گزشتہ ماہ شروع ہونے والی اسرائیل کی نئی زمینی کارروائی کے بعد اسرائیلی فوج نے غزہ کے 75 فیصد سے زیادہ علاقے پر اپنا قبضہ جمالیا ہے۔ غزہ سٹی پر حملے سے قبل تباہی کی کارروائیوں کی شدت ریکارڈ سطح تک پہنچ گئی۔
یہ اعداد و شمار اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ جنگ سے قبل غزہ کی آبادی کا تقریباً 3 فیصد یعنی ہر 33 میں سے ایک شخص موت کی وادی میں دھکیل دیا گیا ہے۔ شہید ہونے والوں میں کم از کم 20 ہزار بچے بھی شامل ہیں، یعنی گزشتہ 24 ماہ کے دوران اوسطاً اسرائیل نے ہر گھنٹے میں ایک بچے کو شہید کیا۔
فلسطینی وزارتِ صحت کے مطابق یہ اعداد و شمار صرف ان افراد پر مشتمل ہیں جن کی لاشیں اسپتالوں میں لائی گئیں یا جن کی اموات سرکاری طور پر درج ہوئیں۔ شہدا کی اصل تعداد کہیں زیادہ ہونے کا خدشہ ہے کیوں کہ ان اعداد و شمار میں وہ لوگ شامل نہیں جو لاپتہ ہیں یا جن کی لاشیں ملبے تلے دبی ہوئی ہیں۔
غزہ جنگ میں ہونے والا جانی نقصان صرف ہلاکتوں تک محدود نہیں، اس جنگ میں اب تک ایک لاکھ 70 ہزار سے زائد افراد زخمی ہو چکے ہیں۔ یونیسف کے مطابق 3 سے 4 ہزار بچوں کے ایک یا ایک سے زیادہ اعضا ضائع ہو چکے ہیں۔
اسرائیلی محاصرے نے 20 لاکھ شہریوں کو قحط اور فاقہ کشی کا شکار کر دیا۔ اقوام متحدہ کے مطابق اگست تک غزہ کی 92 فیصد رہائشی عمارتیں اور 88 فیصد تجارتی تنصیبات تباہ ہوچکی ہیں یا انہیں بری طرح نقصان پہنچا ہے۔
اسرائیلی فوج پوری کی پوری بستیوں کو صفحۂ ہستی سے مٹا چکی ہے جس کے نتیجے میں لاکھوں فلسطینی بے گھر ہو گئے ہیں جب کہ اسرائیلی درندوں نے اسپتال، مساجد، کلیسا، تعلیمی ادارے، سڑکیں اور سویلین انفرااسٹرکچر کچھ نہ چھوڑا۔
اسرائیل نے غزہ کے تقریباً تمام اسپتالوں اور طبی مراکز کو نشانہ بنایا ہے، گزشتہ 2 برسوں میں کم از کم 125 طبی مراکز کو نقصان پہنچا ہے، جن میں 34 اسپتال شامل ہیں، یوں ہزاروں مریض بنیادی طبی سہولیات سے محروم ہو گئے ہیں۔
غزہ کی محصور پٹی میں جو چند اسپتال اب بھی کام کر رہے ہیں، وہ ناکافی طبی سامان کے باعث مریضوں کو سہولیات دینے سے قاصر ہیں۔
اسرائیلی حملوں اور بمباری کے نتیجے میں کم از کم 1722 طبی و امدادی کارکن شہید ہوچکے ہیں جب کہ سیکڑوں دیگر طبی اہلکاروں کو اسپتالوں سے زبردستی حراست میں لے کر اسرائیلی جیلوں اور فوجی کیمپوں میں قید کر دیا گیا ہے۔
7 اکتوبر 2023 سے اب تک دو سال کے دوران غزہ میں تقریباً 300 صحافی اور میڈیا ورکرز بھی اسرائیلی جارحیت کا نشانہ بن چکے ہیں۔