دستخط تو ہوگئے، مگر غزہ امن معاہدے کو کون سے خطرات موجود ہیں؟

0 minutes, 0 seconds Read

دو سال سے جاری خونی جنگ کے بعد مشرقِ وسطیٰ میں بالآخر ایک بڑی پیش رفت سامنے آئی ہے۔ اسرائیل اور حماس نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے پیش کردہ امن منصوبے کے پہلے مرحلے پر اتفاق کر لیا ہے، جس میں جنگ بندی، اسرائیلی فوج کا جزوی انخلا اور قیدیوں کے تبادلے کا معاہدہ شامل ہے۔

یہ معاہدہ مصر میں ہونے والے بالواسطہ مذاکرات کے بعد طے پایا، جو حماس کے 2023 کے حملے کی دوسری برسی کے ایک دن بعد ہوئے۔ اسی حملے کے جواب میں اسرائیل نے غزہ پر تباہ کن جنگ چھیڑ دی تھی جس میں لاکھوں فلسطینی بے گھر اور ہزاروں جاں بحق ہوئے۔

صدر ٹرمپ کا اعلان اور معاہدے کی تفصیلات

صدر ٹرمپ نے اپنے بیان میں کہا کہ اسرائیل اور حماس دونوں نے معاہدے کے ابتدائی مرحلے پر دستخط کر دیے ہیں۔ اس کے تحت تمام اسرائیلی مغویوں (خواہ زندہ ہوں یا جاں بحق) کو اگلے 72 گھنٹوں میں رہا کیا جائے گا، اور اسرائیلی فوج غزہ سے پیچھے ہٹ کر ”یلو لائن“ تک چلی جائے گی، جو اس منصوبے میں انخلا کی ابتدائی حد کے طور پر طے کی گئی ہے۔

حماس نے بھی تصدیق کی ہے کہ یہ معاہدہ جنگ کے خاتمے، اسرائیلی افواج کے انخلا اور قیدیوں کے تبادلے پر مبنی ہے۔ تاہم، حماس نے صدر ٹرمپ اور ثالث ممالک سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ اس بات کو یقینی بنائیں کہ اسرائیل جنگ بندی کے وعدوں پر مکمل طور پر عمل کرے۔


AAJ News Whatsapp

ابھی تک کیا واضح نہیں؟

تاہم، اس حوالے سے ابھی تک کئی اہم پہلو واضح نہیں ہو سکے ہیں۔ مثلاً: جنگ کے بعد غزہ کا انتظام کون سنبھالے گا؟ حماس کا مستقبل کیا ہوگا؟ اور فلسطینی اتھارٹی کا کردار کب شروع ہوگا؟

تاہم، صدر ٹرمپ کے 20 نکاتی منصوبے کے مطابق جنگ کے بعد غزہ کی نگرانی ایک بین الاقوامی ادارہ کرے گا جسے “بورڈ آف پیس” (Board of Peace) کہا جائے گا، اور اس کی سربراہی خود ٹرمپ کریں گے۔ اس ادارے میں سابق برطانوی وزیراعظم ٹونی بلیئر بھی شامل ہوں گے۔

اگلے اقدامات کیا ہوں گے؟

اسرائیلی وزیراعظم بنیامین نیتن یاہو جمعرات کو اپنی کابینہ کا اجلاس بلا رہے ہیں تاکہ اس معاہدے کی منظوری دی جا سکے۔

حماس کے ذرائع کے مطابق، جیسے ہی اسرائیلی حکومت معاہدے کی توثیق کرے گی، 72 گھنٹوں کے اندر زندہ مغویوں کو رہا کر دیا جائے گا۔ اسرائیلی ذرائع کے مطابق مغویوں کی رہائی ہفتے کے روز شروع ہوگی، جن میں سے تقریباً 20 کے زندہ ہونے کی اطلاعات ہیں۔

امریکی حکام کے مطابق، اسرائیل کی منظوری کے 24 گھنٹے بعد فوج پیچھے ہٹے گی، جس کے بعد 72 گھنٹے کا وقت مغویوں کی رہائی کے لیے شمار کیا جائے گا۔

صدر ٹرمپ آنے والے دنوں میں مصر کا دورہ کریں گے اور ممکن ہے کہ وہ جمعے کو مشرقِ وسطیٰ روانہ ہوں۔ اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو نے انہیں اسرائیلی پارلیمنٹ سے خطاب کی دعوت بھی دی ہے۔

’ٹرمپ اور ثالثوں کا تہہ دل سے شکریہ، لڑائی اب ہمیشہ کے لیے بند ہونی چاہیے‘: غزہ امن معاہدے پر عالمی ردعمل

معاہدے کے خطرات اور چیلنجز

یہ معاہدہ صدر ٹرمپ کے لیے اب تک کی سب سے بڑی خارجہ پالیسی کامیابی قرار دیا جا رہا ہے۔ تاہم، خطرات اب بھی باقی ہیں۔

حماس نے اسرائیلی مطالبہ مسترد کر دیا ہے کہ وہ اپنے ہتھیار ڈال دے۔ حماس کے مطابق جب تک اسرائیلی فوج فلسطینی علاقوں پر قابض ہے، وہ غیر مسلح نہیں ہوگی۔

ذرائع کے مطابق، سب سے بڑا اختلاف اس بات پر ہے کہ اسرائیلی فوج کا انخلا کب اور کیسے ہوگا، اور یہ عمل مغویوں کی رہائی سے کس طرح جڑا ہوگا۔

عرب ممالک، جو ٹرمپ پلان کی حمایت کر رہے ہیں، کہتے ہیں کہ یہ امن منصوبہ بالآخر فلسطینی ریاست کی آزادی پر منتج ہونا چاہیے۔ لیکن نیتن یاہو نے ایک بار پھر واضح کر دیا ہے کہ وہ فلسطینی ریاست کے قیام کے خلاف ہیں۔

دوسری جانب، حماس کا کہنا ہے کہ وہ غزہ کی حکومت کسی غیر ملکی یا ٹونی بلیئر جیسے رہنما کے حوالے نہیں کرے گی۔ حماس چاہتی ہے کہ ایک ”فلسطینی ٹیکنوکریٹ حکومت“ قائم کی جائے جسے عرب اور مسلم ممالک کی حمایت حاصل ہو۔

ذرائع کے مطابق، حماس نے جو قیدیوں کی فہرست دی ہے، اس میں معروف فلسطینی رہنما مروان برغوثی اور احمد سعدات جیسے قیدی شامل ہیں، جو اسرائیل کی جیلوں میں طویل قید کاٹ رہے ہیں۔

یاد رہے کہ دو سال سے جاری اس جنگ میں 40 ہزار سے زائد فلسطینی جاں بحق ہو چکے ہیں، جب کہ اسرائیلی حملوں نے غزہ کے بڑے حصے کو کھنڈر بنا دیا ہے۔ اس سے قبل جنگ بندی کی متعدد کوششیں ناکام ہوئیں، لیکن یہ پہلا موقع ہے کہ دونوں فریقوں نے ایک تحریری معاہدے پر باضابطہ طور پر دستخط کیے ہیں۔

اگر اس منصوبے پر مکمل عمل ہو جاتا ہے تو یہ نہ صرف غزہ بلکہ پورے مشرقِ وسطیٰ کے لیے امن کی ایک نئی امید بن سکتا ہے۔

Similar Posts