دورہ بھارت کے دوران پریس کانفرنس کرتے ہوئے طالبان کے وزیر خارجہ امیر خان متقی نے کہا ہے کہ ہم پاکستان حکومت کا یہ اقدام بڑی غلطی سمجھتے ہیں اور اس کی سخت مذمت کرتے ہیں۔
بھارتی صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے امیر خان متقی نے کہا کہ سرحدی اور دو دراز علاقوں پرحملہ ایک بڑی غلطی ہے۔ ایسے مسائل طاقت کے زور سے حل نہیں ہوتے، افغانستان کی تاریخ گواہ ہے۔ انھوں نے کہا کہ ہر تنازع کا حل مذاکرات اور تفہیم سے ممکن ہے۔
طالبان وزیرِ خارجہ نے صحافیوں کے سوالوں کے جواب دیتے ہوئے بتایا کہ کابل میں ہونے والے دھماکے کی تحقیقات جاری ہیں، تاہم تاحال کسی قسم کی ٹھوس معلومات سامنے نہیں آئیں۔ امیر خان متقی نے بتایا کہ رات بھر تحقیقات کی گئیں لیکن یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ آواز کس چیز کی تھی، ممکن ہے کسی معدنیاتی سرگرمی سے پیدا ہوئی ہو۔
امیر خان متقی نے مزید کہا کہ افغانستان ایک آزاد ملک ہے اور خطے میں امن کی فضا قائم ہونے کے بعد اگر کوئی ملک اسے نقصان پہنچانے کی کوشش کرے تو یہ افسوسناک ہوگا۔ ہماری خواہش ہے کہ تمام ممالک کے ساتھ متوازن اور پرامن تعلقات رہیں۔ جیسے ہم بھارت کے ساتھ اچھے تعلقات چاہتے ہیں، ویسے ہی پاکستان کے ساتھ بھی، مگر تعلقات یکطرفہ نہیں ہوتے۔
طالبان کے وزیر خارجہ نے کہا کہ گزشتہ چار برسوں میں افغانستان نے امن، ترقی اور سہولیات کے میدان میں نمایاں بہتری حاصل کی ہے۔ افغانستان خطے کا ٹرانزٹ حب بن سکتا ہے، کیونکہ یہ وسطی اور جنوبی ایشیا کے درمیان قدرتی پل کی حیثیت رکھتا ہے۔ ایسے میں ملک میں استحکام سب کے مفاد میں ہے۔
انھوں نے بھارت سے تعلقات پر بات کرتے ہوئے کہا کہ افغانستان بھارت کے ساتھ سفارتی اور اقتصادی روابط مزید مضبوط کرنا چاہتا ہے۔ ہم دہلی میں اپنے ڈپلومیٹس بھیجنے کا ارادہ رکھتے ہیں، انشااللہ مناسب افراد کا انتخاب کر کے یہاں تعینات کیا جائے گا تاکہ دوطرفہ تعلقات کو مزید فروغ دیا جا سکے۔
امیر متقی نے کہا کہ کابل میں بھارتی سفارت خانے کی بحالی خوش آئند ہے اور طالبان حکومت اسے تعلقات کی بحالی کی سمت مثبت قدم سمجھتی ہے۔ دارالعلوم دیوبند کے بارے میں انھوں کہا کہ یہ اسلامی علوم کا ایک تاریخی مرکز ہے اور افغانستان کے علما کے ساتھ اس کے دیرینہ تعلقات ہیں۔
انھوں نے بتایا کہ ہم وہاں اساتذہ اور طلبہ سے ملاقات کریں گے۔ ہمارے طلبہ ہمیشہ دیوبند میں دینی تعلیم کے لیے آتے رہے ہیں۔ ہم اس نظریے کے قائل نہیں کہ افغانستان سے کسی ملک کو خطرہ ہے جو ایسا کہے وہ ثبوت لائے۔
تجارت سے متعلق سوال پر افغان وزیرِ خارجہ نے کہا کہ واہگہ کے راستے تجارت دونوں ملکوں کے لیے مفید ہے، اس لیے اسے بند نہیں کیا جانا چاہیے۔ اقتصادی اور انسانی مسائل کو سیاسی اختلافات کے ساتھ نہیں جوڑنا چاہیے۔ یہ راستہ عوام کی ضرورت کا ہے اور تجارتی اعتبار سے سستا اور مؤثر بھی۔
انھوں نے کہا کہ افغانستان میں اب امن قائم ہے اور کسی کے قبضے یا شورش کا سوال پیدا نہیں ہوتا۔
چار سالوں میں افغانستان نے کسی کو نقصان نہیں پہنچایا۔ جو لوگ پروپیگنڈا کر رہے ہیں وہ غلطی پر ہیں، ہمارے ملک میں سب کو ان کے حقوق حاصل ہیں اور قانون نافذ ہے۔
بگرام بیس کے سوال کے جواب میں امیر خان متقی نے واضح کیا کہ افغانستان میں کسی غیر ملکی فوجی موجودگی کو عوام نے کبھی قبول نہیں کیا اور نہ آئندہ کرے گی۔ ہم ایک آزاد اور خودمختار ملک ہیں، جو ہمارے ساتھ تعلقات چاہتا ہے وہ ڈپلومیٹک اور اقتصادی سطح پر آئے، مگر فوجی لباس میں نہیں۔
افغان وزیرِ خارجہ کا کہنا تھا کہ افغانستان تمام ممالک کے ساتھ برابری، امن اور مفاہمت کی بنیاد پر تعلقات چاہتا ہے۔ جب ڈپلومیسی اور مذاکرات کا راستہ کھلا ہے تو طاقت آزمانے کی ضرورت نہیں۔ ہم خطے کے استحکام اور ترقی کے خواہاں ہیں۔