اسلام آباد کی سب سے بڑی تشویش کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) اور اس سے منسلک گروپوں کی جانب سے افغان سرزمین کا استعمال کرنا رہا ہے ۔
پاکستان نے محسوس کیا تھا کہ کرزئی اور غنی کی سابقہ انتظامیہ شاید ان گروپوں کو کام کرنے کی اجازت دینے میں ملوث تھی۔
لیکن اسے افغان طالبان سے مختلف توقعات تھیں۔ اسی وجہ سے پاکستان نے بین الاقوامی برادری کو شروع میں ہی عبوری سیٹ اپ کے ساتھ منسلک رہنے پر آمادہ کیا۔
تاہم پاکستان کو یہ سمجھنے میں صرف چند ماہ لگے کہ افغان طالبان اور ٹی ٹی پی ایک ہی سکے کے دو رُخ ہیں۔ اب 11اکتوبر کی رات طالبان فورسز کی جانب سے متعدد پاکستانی پوسٹوں پر بلا اشتعال حملے آخر کار اسلام آباد کی افغان پالیسی میں غیر معمولی تبدیلی لانے کا باعث بن گئے ہیں۔
فوج کے میڈیا ونگ نے افغان حملوں اور پاکستان کے ردعمل کی آپریشنل تفصیلات فراہم کی ہیں۔ دفتر خارجہ کی طرف سے رات گئے جاری ہونے والے بیان میں افغان طالبان پر پاکستان کے ’’ یو ٹرن ‘‘ کے بارے میں واضح اشارہ دے دیا گیا۔
دفتر خارجہ کے ریڈ آؤٹ میں اسلام آباد نے کابل انتظامیہ کو افغان عبوری حکومت بتانے سے گریز کیا۔ اس کے بجائے اسے ’’ طالبان حکومت ‘‘ کہا گیا۔ یہ طالبان حکومت کی قانونی حیثیت پر سوالیہ نشان لگانے کا ایک اقدام تھا۔
سرکاری ہینڈ آؤٹ میں اس سے بھی بڑھ کر جو بات کی گئی وہ وہ کابل میں پاکستان کی نمائندہ حکومت کی خواہش کا اظہار تھا۔
دفتر خارجہ کے بیان میں کہا گیا کہ پاکستان ایک پرامن، مستحکم، دوستانہ، جامع، علاقائی طور پر جڑے ہوئے اور خوشحال افغانستان کا خواہاں ہے۔
پاکستان توقع کرتا ہے کہ طالبان حکومت ذمہ داری سے کام کرے گی۔ اپنے وعدوں کا احترام کرے گی اور اپنی سرزمین سے دہشت گردی کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے مشترکہ مقصد کے حصول میں تعمیری کردار ادا کرے گی۔
ہم یہ بھی امید کرتے ہیں کہ ایک دن افغان عوام آزاد ہو جائیں گے اور ان پر ایک حقیقی نمائندہ حکومت قائم ہوجائے گی۔
سرکاری ذرائع نے ’’ ایکسپریس ٹریبیون ‘‘ کو بتایا کہ یہ تبدیلی پاکستان کے اچھی طرح سے سوچے سمجھے اقدام کا حصہ تھی ۔
ذرائع نے کہا پاکستان اس وقت تک طالبان حکومت کی حمایت نہیں کرے گا جب تک وہ اپنے طریقے درست نہیں کرے گی اور پاکستان کے حقیقی سکیورٹی خدشات کو دور نہیں کرے گی۔
پاکستان نے کارروائی کرنے یا مصروفیات کے نئے اصول بھی مرتب کر دیے ہیں جس کا مطلب ہے کہ سرحد پار سے مزید کسی بھی دہشت گردانہ حملے پر افغانستان کے اندر فوری جواب دیا جائے گا۔