آئی ایم ایف کی جانب سے سالانہ اجلاس کے دوران جاری کردہ فسکل مانیٹر 2025 رپورٹ کے مطابق پاکستان کارواں مالی سال 26-2025 میں مالی خسارہ جی ڈی پی کا 4.1 فیصد رہنے کی توقع ہے جو گزشتہ مالی سال25-2024 کے 5.3 فیصد سے کم ہے مگر حکومت کے مقرر کردہ ہدف 3.9 فیصد سے کچھ زیادہ ہے۔
آئی ایم ایف نے تجویز دی ہے کہ دفاع، انفرااسٹرکچر یا مسابقت بڑھانے کے لیے دی جانے والی سبسڈی جیسے اخراجات کے دباؤ سے گریز کیا جائے اور ٹیکس کے خلاف مزاحمت کم کر کے مالیاتی استحکام پیدا کرنے کی سفارش کی ہے تاکہ قرض کے بڑھتے ہوئے بوجھ کو کم کیا جا سکے۔
اس حوالے سے آئی ایم ایف کا کہنا ہے کہ اگر ان سفارشات پر عمل درآمد کیا جاتا ہے تو آئندہ سال مالیاتی خسارہ جی ڈی پی کے 3.9 فیصد، 2028 میں 3.3 فیصد، 2029 میں 3.1 فیصد اور 2030 میں 2.8 فیصد تک کم ہو جائے گا۔
اسی طرح آئی ایم ایف نے پاکستان کے پرائمری بیلنس (یعنی سود کی ادائیگیوں کے بغیر محصولات اور اخراجات کے درمیان فرق) کا تخمینہ موجودہ مالی سال کے لیے جی ڈی پی کے 2.5 فیصد کے برابر لگایا ہے، جو گزشتہ سال کے 2.4 فیصد سے کچھ بہتر ہے۔
آئندہ مالی سال میں یہ شرح 2 فیصد رہنے کی توقع ہے جب کہ آئی ایم ایف کے مطابق اگلے تین برسوں تک یہ سطح تقریباً مستحکم رہے گی۔
آئی ایم ایف کے مطابق گزشتہ دو بجٹوں میں 7 ارب ڈالر کے بیل آوٴٹ پیکج کے تحت کیے گئے سخت ٹیکس اقدامات کی بدولت حکومت کی مجموعی آمدن میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔
رپورٹ میں بتایا گیا کہ پاکستان کی مجموعی حکومتی آمدن 2024 میں جی ڈی پی کے 12.7 فیصد سے بڑھ کر 2025 میں 15.7 فیصد ہو جائے گی اور اس کے بعد مزید بڑھ کر 16.2 فیصد ہونے کا امکان ہے۔
آئی ایم ایف نے پیش گوئی کی ہے کہ آئندہ سال ٹیکس سے حاصل شدہ آمدن کا تناسب جی ڈی پی کے لحاظ سے 15.7 فیصد تک گر جائے گا لیکن 2028 سے 2030 کے دوران 15.9 فیصد پر مستحکم رہے گا۔
دوسری جانب حکومت کے مجموعی اخراجات موجودہ مالی سال میں جی ڈی پی کے 20.4 فیصد تک رہنے کا امکان ہے، جو گزشتہ سال کے 21.1 فیصد سے کم ہیں، اس کی ایک بڑی وجہ سود کی شرح میں کمی کے باعث قرض کی ادائیگیوں کے اخراجات میں کمی بتائی گئی ہے۔
آئی ایم ایف نے پیش گوئی کی ہے کہ حکومتی اخراجات اگلے سال 19.6 فیصد، 2028 میں 19.2 فیصد، 2029 میں 19 فیصد اور 2030 میں 18.8 فیصد تک کم ہو جائیں گے اور قرض سے جی ڈی پی کا تناسب 2024 کے 70.4 فیصد سے بڑھ کر 2025 میں 71.6 فیصد ہو گیا ہے لیکن 2030 تک اس میں مجموعی طور پر 10 فیصد سے زائد کمی متوقع ہے۔
رپورٹ میں بتایا گیا کہ موجودہ مالی سال کے دوران یہ تناسب معمولی کمی کے ساتھ 71.3 فیصد رہے گا، آئندہ سال 69.2 فیصد تک گر جائے گا، پھر 2028 میں 66.2 فیصد، 2029 میں 63.1 فیصد اور 2030 میں مزید کم ہو کر 60.2 فیصد تک پہنچ جائے گا، اب بھی قانونی حد 60 فیصد سے کچھ زیادہ ہے اور اس کی خلاف ورزی گزشتہ 16 سال سے زائد عرصے سے مسلسل ہو رہی ہے۔
آئی ایم ایف نے یہ بھی خبردار کیا ہے کہ پنشن کے اخراجات 2030 تک جی ڈی پی کے 0.1 فیصد کے برابر بڑھ جائیں گے حالانکہ حکومت نے حال ہی میں اصلاحات متعارف کرائی ہیں مزید یہ کہ پنشن کے اخراجات کی خالص موجودہ قیمت 2050 تک جی ڈی پی کے 6.2 فیصد کے برابر بڑھنے کا امکان ہے۔