وفاقی حکومت نے گندم پالیسی 26-2025 کی منظوری دے دی ہے، نئی گندم پالیسی کے تحت کسانوں کو مناسب قیمت دی جائے گی اور حکومت مستحکم ذخائر اور کسانوں کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے سٹریٹجک اسٹاک خریدے گی۔
وزیراعظم محمد شہبازشریف کی زیر صدارت گزشتہ روز گندم پالیسی 2025-26 سے متعلق اعلیٰ سطح اجلاس ہوا، جس میں پنجاب، سندھ، بلوچستان اور گلگت بلتستان کے وزرائے اعلیٰ، خیبرپختونخوا کے وزیرِ اعلی کے نمائندے، جموں و کشمیر کے وزیراعظم اور متعلقہ اسٹیک ہولڈرز شریک ہوئے۔
شرکا سے گفتگو کرتے ہوئے وزیراعظم نے کہا کہ پاکستان ایک زرعی معیشت ہے اور گندم کی فصل کلیدی اہمیت کی حامل ہے، گندم نہ صرف پاکستان کے لوگوں کی بنیادی خوراک ہے بلکہ ملک کے کسانوں کے لیے آمدنی کا سب سے بڑا ذریعہ بھی ہے۔
شہباز شریف نے کہا کہ حکومت کسانوں کو درپیش مشکلات سے بخوبی آگاہ ہے، کسانوں کی فلاح و بہتری کے لیے ہر ممکن کوششیں کی جا رہی ہیں، کسان پاکستان کی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ پالیسی کیلئے وفاقی حکومت نے تمام اسٹیک ہولڈرز بشمول صوبائی حکومتوں، کسان تنظیموں، صنعتکاروں اور کاشتکار برادری کے ساتھ ایک تفصیلی مشاورتی عمل کیا، جس کی بنیاد پر حکومت قومی گندم پالیسی 2025-26 کا اعلان کر رہی ہے۔
وزیراعظم نے بتایا کہ ’پالیسی کا مقصد عوامی مفادات کا تحفظ کرتے ہوئے کسانوں کے منافع کو یقینی بنانا ہے، اتفاق رائے پر مبنی پالیسی تیار کرنے میں صوبائی حکومتوں کے تعاون کو سراہتے ہیں‘۔
شہباز شریف نے مزید کہا کہ انشاء اللہ یہ پالیسی زرعی ترقی کو فروغ دے گی، پالیسی سے کسانوں کی آمدنی میں اضافہ ہوگا، یہ پالیسی پاکستانی عوام کے لیے غذائی تحفظ کو یقینی بنانے میں اہم کردار ادا کرے گی۔
اجلاس کے شرکا کو پالیسی کے نمایاں خدوخال سے بھی آگاہ کیا گیا۔ بریفنگ میں بتایا گیا کہ وفاقی اور صوبائی حکومتیں 2025-26 کی گندم کی فصل سے تقریباً 6.2 ملین ٹن کے اسٹریٹجک ذخائر حاصل کریں گی اور خریداری 3,500 روپے فی من، گندم کی بین الاقوامی درآمدی قیمت کے مطابق کی جائے گی۔
بریفنگ میں بتایا گیا کہ یہ اقدام مارکیٹ کی مسابقت کو برقرار رکھتے ہوئے کسانوں کو منصفانہ قیمت و منافع کو یقینی بنائے گا، پالیسی کے تحت پاکستان بھر میں گندم کی دستیابی کو یقینی بنانے کے لیے اس کی بین الصوبائی نقل و حرکت پر کوئی پابندی نہیں ہوگی۔
شرکا کو آگاہ کیا گیا کہ وفاقی وزیر برائے قومی غذائی تحفظ گندم کی نگرانی کی ایک قومی کمیٹی کی صدارت کریں گے، کمیٹی میں تمام صوبوں کے نمائندے شامل ہوں گے جبکہ یہ کمیٹی پالیسی اقدامات پر عمل درآمد اور ہم آہنگی کی نگرانی کرے گی۔
بریفنگ میں یہ بھی بتایا گیا کہ کمیٹی ہفتہ وار اجلاس کرے گی اور براہ راست وزیراعظم کو رپورٹ کرے گی، کسانوں کو گندم کی مناسب قیمت دی جائے گی اور حکومت مستحکم ذخائر اور کسانوں کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے کافی اسٹاک خریدے گی۔
سندھ حکومت کا ملکی سطح پر گندم کی امدادی قیمت مقرر کرنے کا مطالبہ
دوسری جانب سندھ حکومت نے وفاق سے ملکی سطح پر گندم کی امدادی قیمت 4 ہزار 200 روپے من مقرر کرنے کا مطالبہ کر دیا۔
وزیر زراعت سردار محمد بخش مہر نے کہا کہ آئی ایم ایف کی شرائط کے باعث صوبائی حکومتیں وفاق کی ہدایت کے بغیر کسانوں کو امدادی قیمت نہیں دے سکتیں، گندم کی امدادی قیمت مقرر نہ ہونے کی وجہ سے کسان شدید مالی دباؤ کا شکار ہیں۔
سردار محمد بخش مہر نے مطالبہ کیا کہ وفاق کم از کم گندم کی امدادی قیمت 4 ہزار 200 روپے فی من مقرر کرنے کا اعلان کرے۔ پیپلز پارٹی کی سینٹرل ایگزیکیٹو کمیٹی بھی گزشتہ روز گندم کی امدادی قیمت مقرر کرنے کا مطالبہ کر چکی ہے۔
صوبائی وزیر نے کہا کہ اگر کسانوں کو مناسب قیمت نہ ملی تو وہ گندم کی کاشت چھوڑ کر دیگر فصلوں کی طرف جا سکتے ہیں، جس سے ملک میں غذائی بحران پیدا ہو سکتا ہے۔
سردار محمد بخش مہر نے کہا کہ سندھ نے کسانوں کے لیے گندم اگاؤ سپورٹ پروگرام کے تحت 56 ارب روپے کا امدادی پیکیج متعارف کروایا ہے، جس کے تحت کسانوں کو یوریا کھاد اور ڈی اے پی خریدنے کے لیے فی ایکڑ 24 ہزار 700 روپے سبسڈی دی جائے گی، یہ سہولت ایک تا 25 ایکڑ زمین والے 4 لاکھ 11 ہزار کاشت کاروں کو دی جائے گی۔
صوبائی وزیر نے کہا کہ اب تک ایک لاکھ 32 ہزار 601 کسان رجسٹرڈ ہو چکے ہیں اور مزید کی رجسٹریشن کا عمل جاری ہے، ہم نے ہاری کارڈ اسکیم کے تحت ہاریوں کے لیے 8 ارب روپے بھی الگ مختص کیے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ صوبے میں 52 ہزار 993 ہاری کارڈ نئے رجسٹرڈ ہاریوں میں کسان سندھ بینک کی تمام برانچز کے ذریعے تقسیم کا عمل جاری ہے، یہ اسکیم 58 ارب روپے کے امدادی پیکیج سے بالکل الگ ہے۔
وزیر زراعت کا کہنا تھا کہ چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کی خصوصی ہدایت ہے کہ سندھ کے کسانوں کو زیادہ سے زیادہ سہولیات فراہم کی جائیں۔