بلدیاتی الیکشن مارچ میں متوقع، غیر جماعتی انتخابات عدالتی حکم کے منافی، ایکسپریس فورم

پنجاب میں نئے بلدیاتی قانون کا منظور ہونا خوش آئند ہے، اگرچہ اس میں سقم موجود ہیںتاہم نظام کا قائم ہونا اہم ہے، خامیاں بعد میں دور کی جاسکتی ہیں۔

آئندہ برس مارچ کے آخر میں بلدیاتی الیکشن متوقع ہیں، انتخابات غیر جماعتی بنیادوں پر ہونا ہائی کورٹ کے 2013ء کے فیصلے اورمیثاق جمہوریت کے منافی ہے۔ ان خیالات کا اظہار حکومت، اکیڈیما اور سول سوسائٹی کے نمائندوں نے ’’پنجاب کے نئے بلدیاتی ایکٹ 2025‘‘ کے حوالے سے منعقدہ ’’ایکسپریس فورم‘‘ میں کیا۔

فورم کی معاونت کے فرائض احسن کامرے نے سرانجام دیے۔  پنجاب اسمبلی کی استحقاق کمیٹی کے چیئرمین و رکن سٹینڈنگ کمیٹی برائے لوکل باڈیز سمیع اللہ خان نے کہا کہ بلدیاتی نظام کے تسلسل کو یقینی بنانے کیلئے آئینی تحفظ دینا ہوگا، اس پر کام بھی ہو رہا ہے، مقامی حکومتیں ختم کرکے دوبارہ الیکشن نہ کروا کر تحریک انصاف کی حکومت نے برا کیا، آئندہ برس مارچ کے آخر میں الیکشن متوقع ہیں۔

نئے بلدیاتی ایکٹ کے حوالے سے مختلف افواہیں گردش کر رہی ہیں، اس میں 9 امیدواروں کا پینل نہیں ہوگا بلکہ ہر کوئی آزاد حیثیت میں الیکشن لڑ سکتا ہے، ڈسٹرکٹ کونسل کو ختم اور تحصیل کونسل کومضبوط کیا جائے گا، ٹاؤن و میونسپل کارپوریشن بنا رہے ہیں، لاہور کے 10 ٹاؤنز بنیں گے اور ہر ٹاؤن کا ایک میئر اور دو ڈپٹی میئر ہوں گے۔

صوبے میں قائم اتھارٹیز اپنا کام کر رہی ہیں، مقامی حکومتوں کے نظام میں تمام اتھارٹیز کا ایک فورم ہوگا جس کا سربراہ سب سے بڑی تحصیل کاچیئرمین ہوگا، جب 60 ہزار سے زائد نمائندے منتخب ہو کر آئیں گے تو وہ اپنے مسائل بھی خود حل کرلیں گے ۔

  ڈائریکٹر پاکستان سٹڈی سنٹر جامعہ پنجاب پروفیسر ڈاکٹر امجد مگسی نے کہا کہ بلدیاتی ایکٹ کا بننا خوش آئند ہے، مقامی حکومتیں سیاسی جماعتوں کے لیے نرسری کی حیثیت رکھتی ہیں، بدقسمتی سے ہم نام تو لوکل گورنمنٹ کا دیتے ہیں لیکن سلوک لوکل باڈیز والا کیا جاتا ہے، مقامی حکومتوں کو مالی اور انتظامی اختیارات نہیں دیے جاتے،نمائندہ سول سوسائٹی پروفیسر ارشد مرزا نے کہا کہ بلدیاتی ادارے سیاسی قیادت کے پروان چڑھنے کی ہیچری ہیں، نیا بلدیاتی ایکٹ منظور ہوچکا ہے لہٰذا اب ہمیں آگے کا سوچنا چاہیے۔

 ملک بھر میں ایک کروڑ 30 لاکھ خواتین کے پاس شناختی کارڈ نہیں ہیں، پنجاب میں بلدیاتی انتخابات سے پہلے ہنگامی بنیادوں پر خواتین کے شناختی کارڈ بناکر ووٹر لسٹوں میں ان کا درست اندراج کیا جائے، ووٹرز اور منتخب نمائندوں کی تربیت بہت ضروری ہے۔

سیاسی تجزیہ نگار سلمان عابد نے کہا کہ بدقسمتی سے بلدیاتی حکومتوں کا نظام ہماری صوبائی حکومتوں کی ترجیحات میں نہیں رہا، صوبے اضلاع اور تحصیلوں کو اختیارات دینے کیلئے تیار نہیں ہیں بلکہ اتھارٹیاں بنا کر ایک متبادل نظام کھڑا کر دیا گیا ہے،اتھارٹیز کو  بلدیاتی نمائندوں  کے تابع ہونا چاہیے۔ 2013 کے ہائیکورٹ کے فیصلے کے مطابق بلدیاتی انتخابات جماعتی بنیادوں پر ہوں گے، نئے بلدیاتی ایکٹ کے تحت غیر جماعتی انتخابات ہائی کورٹ کے فیصلے اور میثاق جمہوریت دونوں کے منافی ہے۔

 

Similar Posts