متنازع قوانین کا مقصد مقبوضہ مغربی کنارے پر نام نہاد ’’اسرائیلی خودمختاری‘‘ مسلط کرنا اور غیر قانونی بستیاں قائم کرنا ہے۔
مشترکہ اعلامیے میں کہا گیا کہ اسرائیل کے یہ اقدامات 1967 سے مقبوضہ فلسطینی علاقوں، بشمول مشرقی یروشلم، کی آبادیاتی ساخت اور قانونی حیثیت کو تبدیل کرنے کی ایک واضح کوشش ہیں، جنہیں عالمی برادری نے بارہا مسترد کیا ہے۔
اعلامیے میں مزید کہا گیا کہ بین الاقوامی عدالت انصاف کی مشاورتی رائے میں واضح طور پر اسرائیلی قبضے کو غیر قانونی قرار دیا گیا ہے، جبکہ مغربی کنارے میں بستیوں کے قیام اور الحاق کے تمام اقدامات کو کالعدم اور باطل ٹھہرایا گیا ہے۔
اعلامیہ پر دستخط کرنے والے ممالک میں سعودی عرب، اردن، انڈونیشیا، پاکستان، ترکیہ، جبوتی، عمان، گیمبیا، فلسطین، قطر، کویت، لیبیا، ملائیشیا، مصر، نائیجیریا، عرب لیگ اور تنظیم تعاون اسلامی (OIC) شامل ہیں۔
اسلامی ممالک نے 22 اکتوبر 2025 کو بین الاقوامی عدالت انصاف کی تازہ رائے کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا کہ عدالت نے اسرائیل کو پابند کیا ہے کہ وہ بین الاقوامی انسانی قانون کے تحت مقبوضہ فلسطینی علاقوں، بشمول غزہ، میں عوام کی بنیادی ضروریات زندگی کی فراہمی یقینی بنائے اور اقوام متحدہ، خصوصاً یو این آر ڈبلیو اے، کی امدادی سرگرمیوں میں رکاوٹ نہ ڈالے۔ عدالت نے یہ بھی واضح کیا کہ بھوک کو بطور ہتھیار استعمال کرنا عالمی قانون کے منافی ہے۔
مزید برآں، عدالت نے فلسطینی عوام کے حق خودارادیت اور آزاد ریاست کے قیام کے حق کی بھی دوبارہ توثیق کی۔
اعلامیے میں خبردار کیا گیا کہ اگر اسرائیل نے اپنی یکطرفہ اور غیر قانونی پالیسیوں کو جاری رکھا تو یہ علاقائی اور عالمی امن کے لیے ایک سنگین خطرہ بن جائے گا۔
اسلامی ممالک نے عالمی برادری سے مطالبہ کیا کہ وہ اپنی قانونی اور اخلاقی ذمہ داریاں پوری کرے، اسرائیل کو فوری طور پر غیر قانونی اقدامات سے باز رکھے، اور فلسطینی عوام کے حق خودارادیت اور آزاد ریاست کے قیام کی حمایت کرے، جو 4 جون 1967 کی سرحدوں اور مشرقی یروشلم کو دارالحکومت بنانے پر مبنی ہو۔
اعلامیے میں کہا گیا کہ یہی راستہ ایک منصفانہ اور پائیدار امن کی ضمانت فراہم کر سکتا ہے۔