پاکستان کے دشمنوں نے اندرونی طور پر ملک کو تقسیم کرنے کے لیے ففتھ جنریشن وار بھی شروع کر رکھی ہے۔ دشمن عناصر ہمارے بچوں کے ذہنوں کو گمراہ کرنے کی جو کوشش کر رہے ہیں کہ اس لیے ضروری ہے کہ نوجوانوں کو درست اور مصدقہ معلومات فراہم کی جائیں تاکہ ان کی غلط فہمی دور ہو سکے۔
بدقسمتی یہ ہے کہ پی ٹی آئی کی طرف سے اپنی حکومت کی آئینی برطرفی کے بعد اداروں کے خلاف مسلسل گمراہ کن پروپیگنڈا کیا جا رہا ہے ۔ سوشل میڈیا پر ان کی سوشل میڈیا ٹیم اور بعض پی ٹی آئی رہنما دن رات نوجوانوں کو گمراہ کر رہے ہیں مگر کہیں سے بھی حقائق نوجوانوں کو نہیں بتائے جا رہے۔
حکومتوں نے تو نئی نسل میں اپنا اعتماد کھو دیا ہے‘کسی بھی حکومت نے نوجوانوں کو اعتماد میں لینے کے لیے کام نہیں کیا لیکن اب اس پر کام ہو رہا ہے۔سچ تو یہی ہے کہ حکومت کی طرف سے اگر سچ بھی بتایا جائے تو نوجوان طبقہ یقین نہیں کرتا۔ پی ٹی آئی کا سوشل میڈیا بریگیڈ اور رہنما مسلسل یہ پروپیگنڈا کر رہے ہیں کہ افغانستان ہمارا دوست ملک ہے ‘دہشت گردی اس لیے ہو رہی ہے کہ اس میں ہمارا اپنا قصور ہے۔
بدقسمتی سے پاکستان میں ایک بڑا طبقہ اس پروپیگنڈے کا شکار ہے حالانکہ سب کو پتہ ہے کہ پاکستان میں دہشت گردی کون کر رہا ہے ؟ اس کے غلط پروپیگنڈے سے متاثر نئی نسل کو حقائق کا پتا نہیں جب کہ یہ زیادہ پرانی نہیں بلکہ 2018 کے بعد کی بات ہے جب کہ جب بانی پی ٹی آئی وزیر اعظم بنے تو وہ یہ کہتے نہیں تھکتے تھے کہ پی ٹی آئی کی حکومت اور پاک فوج ایک صفحے پر ہیں اور فوج پر تنقید کرنے والے ملک دشمن ہیں اور اس فوج کا سربراہ قوم کا باپ ہے جس پر الزام تراشی کرنے والے ملک اور فوج سے دشمنی کر رہے ہیں۔
دنیا جانتی ہے کہ 2018 میں پی ٹی آئی کو کون اقتدار میں لایا تھا۔پی ٹی آئی دور میں اداروں کو اپنے سیاسی مخالفین کے خلاف استعمال کرنے کی کوشش کی گئی اور عسکری معاملات میں غیر ضروری مداخلت کی تھی۔اس وجہ سے ملک میں کئی بحران پیدا ہوئے۔اپوزیشن کے خلاف نیب کو استعمال کیا گیا۔دہشت گردوں کو ملک میں لا کر بسایا گیا اور انھیں باقاعدہ طور پر مراعات دی گئیں۔یہ سب کچھ زیادہ دور کی بات نہیں۔
اپنی آئینی برطرفی کے بعد سابق وزیر اعظم نے جنرل باجوہ کو دوبارہ اقتدار دلانے کے لیے کئی پیشکشیں بھی کی تھیں ۔ جس کا پی ٹی آئی کے تمام رہنماؤں کو پتا ہے مگر کے پی کے نئے وزیر اعلیٰ عشق عمران میں اب فوج پر تنقید کر رہے ہیں۔
حال ہی میں سینیٹر منتخب ہونے والے پی ٹی آئی رہنما کو منتخب ہوتے ہی اداروں میں خامیاں نظر آگئیں اور انھوں نے فوج سے بیرکوں میں واپس جانے، سیاست سے دور رہنے کا بیان جاری کر دیا۔ یہ بیان انھیں اور پی ٹی آئی رہنماؤں کو 2018 میں کیوں یاد نہیں آیا تھا جو اب یاد آ رہا ہے اور وہ اپنی سیاست کے لیے اب بے سروپا مطالبے کر رہے ہیں۔
پی ٹی آئی اس کے نئے حلیف محمود اچکزئی کے ساتھ اب مولانا فضل الرحمن بھی بانی پی ٹی آئی کی زبان بول رہے ہیں اور ان کی پرانی باتیں دہرانے میں مصروف ہیں۔ مولانا کو بھی سوچنا چاہیے کہ اب جے یو آئی کے لیے بھی پہلے جیسے حالات نہیں رہے ۔ان کا تاثر ایک اچھے سلجھے ہوئے سیاستدان کا ہے۔
انھیں اپنا یہ تشخص برقرار رکھنا چاہیے۔ خیبرپختونخوا کے جو حالات ہیں ‘ان کو سدھارنے میں وفاقی حکومت کا ساتھ دینا چاہیے نہ کہ پی ٹی آئی کا ۔جہاں تک افغانستان کا تعلق ہے تو افغانستان ایک الگ ملک ہے۔خیبرپختونخوا کے لیڈروں کا یہ موقف کہ دونوں جانب ایک جیسے لوگ رہتے ہیں تو اس حوالے سے عرض یہ ہے کہ دنیا بھر میں بہت سے ملک ایسے ہیں جن کی سرحدوں کے آر پار ایک ہی زبان بولنے والے یا ایک ہی نسلی گروہ رہتے ہیں لیکن وہ اپنی اپنی ملکوں کی سرحدوں کا احترام کرتے ہیں۔سعودی عرب میں رہنے والے اور قطر میں رہنے والے ایک ہی طرح کے لوگ ہیں‘لیکن ایسا نہیں ہے کہ دونوں کے درمیان سرحدی تشخص نہ ہو ۔اسی طرح ایران کے صوبہ آذربائیجان اور آزاد ملک آذربائیجان کے باشندے ایک ہی قوم ‘مذہب اور زبان بولتے ہیں۔لیکن ان کی سرحدیں اپنی اپنی ہیں۔اس لیے پاکستان میں وہ سیاستدان جو پاک افغان سرحد کے بارے میں منفی پروپیگنڈا کرتے ہیں‘ پاکستانی شہری ہونے کے ناتے انھیں ایسی باتیں کرنا کا کوئی حق حاصل نہیں ہے۔
ڈی آئی خان جے یو آئی کا وہ حلقہ ہے جہاں سے مولانا کو چار بار شکست ہو چکی ہے اور اب بھی وہ محمود اچکزئی کے باعث پشین سے منتخب ہوئے اور علی امین گنڈاپور جیسا نیا چہرہ مولانا کو ان کے اپنے آبائی شہر ڈی آئی خان سے متعدد بار شکست دے چکا ہے جب کہ اس حلقے سے مولانا کے والد مولانا مفتی محمود نے بھٹو جیسے رہنما کو شکست دی تھی۔اس پر بھی غور کرنے کی ضرورت ہے۔ممکن ہے کہ مولانا کو ہرانے کے لیے دھاندلی کرائی گئی ہے۔ لیکن بہر حال انھوں نے اس ہار کو تسلیم کیا ہے۔
پاکستان کو دنیا میں عزت مل رہی ہے۔اب اسٹیبلشمنٹ تبدیل ہو چکی ،اسٹیبلشمنٹ پر تنقید کرنے والے سیاستدان حقائق کے برعکس اپنی پرانی سیاست ہی میں مصروف ہیں۔ اب اس قسم کی طرز سیاست عوام میں پذیرائی حاصل نہیں کر سکتی۔ پاکستان کی سیاسی قیادت کو چاہے وہ مذہبی قیادت ہو یا چاہے پاپولر سیاسی قیادت ہو ‘اسے نئے تقاضوں کے مطابق سیاست کرنی ہوگی۔ایسی سیاست جس میں پاکستان کے مفادات کو اولیت حاصل ہے