امریکا میں تاثر عام ہے کہ صدر جھوٹ بولنے میں بلا کی مہارت رکھتے ہیں اور اس پر نادم بھی نہیں ہوتے۔ امریکا کے ایک مقبول اور ممتاز صدر آئزن ہاور کہا کرتے تھے کہ امریکا کے صدر کے پاس جو سب سے موثر ہتھیار ہے، وہ لوگوں کا اس کے منہ سے نکلی ہر بات پر اعتبار ہے۔ یہاں ٹرمپ کے معاملے میں صورت یہ ہے کہ ان کے منہ سے نکلے الفاظ کا اعتبار یہ بات طے کرتی ہے کہ وہ الفاظ کس کے بارے میں کہے گئے ہیں۔
آیا وہ دوست ہے یا دشمن‘ اپنی جماعت کا ہے کہ مخالف پارٹی کا۔ گو کہ صدر ٹرمپ کی اس طرح کی باتیں ایک عالمی طاقت کے سربراہ کو زیب نہیں دیتیں لیکن یہ بات بھی اپنی جگہ درست ہے کہ ان کی کہی ہوئی اکثر باتیں مزاحیہ پن کا شاہکار ہوتی ہیں اور سننے والا ان سے محظوظ ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔ مثال کے طور پر اپنے عرصہ صدارت کے آغاز میں انھوں نے امریکا کے ایک مقبول ٹیلی ویژن ہوسٹ ’جو ساربروہ‘ کو قاتل قرار دے دیا۔
انتخابات ابھی ہوئے نہیں تھے لیکن ٹرمپ انھیں ’’عنقریب ہونے والے دھاندلی زدہ الیکشن‘‘ کہا کرتے تھے۔ پھر انھوں نے الزام لگا دیا کہ صدر اوباما ان کی انتخابی مہم کی جاسوسی کروا رہے ہیں۔ اس کے پیچھے شاید امریکی تاریخ میں پیش آنے والے واٹر گیٹ اسکینڈل‘ کا تصور ہو جب امریکی صدر نکسن کو مخالف جماعت کی جاسوسی پر اقتدار سے ہاتھ دھونا پڑے تھے۔ ایک ایسے وقت پر جب دنیا کورونا وائرس کی وبا کی لپیٹ میں تھی اور امریکا میں ہزاروں لوگ اس وباء کا شکار ہو کر ہلاک ہو رہے تھے۔ صدر ٹرمپ نے ٹویٹ کیا ’’صرف وہی ڈیموکریٹ ایک اچھا ڈیموکریٹ ہے جو وفات پا چکا ہو‘‘۔ڈیمو کریٹ سے مراد مخالف جماعت ڈیموکریٹک پارٹی کا بندہ۔
“The only good democrat is a dead democrat” یہ بلاشبہ ایک سفاکانہ تبصرہ ہے۔
صدر ٹرمپ کا ایک اور ’’امتیاز‘‘ یہ ہے کہ آپ ان کی اگلی بات یا عمل کی پیشگوئی نہیں کر سکتے۔ عین ممکن ہے کہ وہ اپنے ہی قائم کردہ کسی تاثر کے بالکل الٹ حرکت یا فیصلہ کر دیں۔ ابھی حال ہی میں جب فلسطین کے معاملے پر اہم مسلم ممالک کے سربراہان صدر ٹرمپ سے ملاقاتیں کر رہے تھے تو ترکی کے صدر اردوان سے ون ٹو ون ملاقات کے موقع پر دونوں صدور ساتھ ساتھ بیٹھ کر پریس سے مخاطب تھے۔
صدر ٹرمپ نے بات شروع کرتے ہوئے کہا ’’صدر اردوان میرے قریبی دوست ہیں۔ گزشتہ چار برس سے ہم ایک دوسرے کو بہت قریب سے جانتے ہیں۔ جب مجھے ایک دھاندلی زدہ الیکشن کے ذریعے سیاست سے دیس نکالا دے دیا گیا‘‘ … یہاں ٹرمپ ڈرامائی انداز میں رکتے ہیں اور صدر اردوان کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہتے ہیں: ’’دھاندلی زدہ الیکشن کے بارے میں آپ سے بہتر کون جانتا ہے۔‘‘حالیہ دنوں میں پاکستان اور بھارت بھی صدر ٹرمپ کی گفتگو کا خاص موضوع رہے‘ بالخصوص دونوں ملکوں میں ہونے والی 4 روزہ جنگ پر صدر ٹرمپ نے بہت دلچسپ تبصرے کیے۔ پہلے تو انھوں نے جنگ رکوانے کو اپنا کارنامہ قرار دیا اور ایسا تاثر پیدا کرنے کی کوشش کی کہ اگر وہ ایسا نہ کرتے تو دنیا بڑے خطرے سے دوچار ہو جاتی۔
دو روز قبل میامی میں امریکن بزنس فورم سے خطاب میں انھوں نے کہا ’’گزشتہ آٹھ مہینوں میں‘ میں نے آٹھ جنگیں ختم کروائی ہیں‘‘۔ ان میں سے آخری جنگ پاکستان اور بھارت کی تھی۔ پھر فرمایا ’’میں دونوں ملکوں کے ساتھ تجارتی معاہدے کے قریب تھا کہ ایک اخبار کی شہہ سرخی میں دونوں ملکوں کی جنگ کی خبر تھی‘ اخبار کا نام نہیں لوں گا کیونکہ یہ اکثر جھوٹی خبریں چھاپتا ہے‘ پھر پتہ چلا کہ واقعی جنگ ہو رہی ہے۔ آٹھ طیارے…سات طیارے تو گرا دیے گئے۔ آٹھواں شدید زخمی تھا … یہی کہنا بنتا کہ آٹھ طیارے گرے۔‘‘ اور پھر انھوں نے وہی بات دھرائی کہ میں نے دونوں ملکوں سے کہا کہ جنگ کرو گے تو تجارتی معاہدہ نہیں ہو گا۔
ان دنوں انھوں نے بھارتی وزیراعظم مودی کی سُبکی کا کوئی موقع نہیں جانے دیا اور پاکستان کی عسکری اور سیاسی قیادت کی تعریفوں کے پل باندھ دیے۔ حتی کہ اس تاثر کے زیر اثر نریندر مودی نے ٹرمپ کے سامنے نہ آنے کی شعوری کوشش شروع کر دی۔ لیکن کہانی میں اب ایک اور ڈرامائی موڑ آ چکا ہے۔ امریکا اور بھارت کے درمیان عسکری تعاون کا دس سالہ معاہدہ ہو گیا ہے۔
دونوں ملکوں کے وزراء دفاع نے اس معاہدے پر دستخط کیے ہیں۔ یہ معاہدہ ایسے وقت ہوا ہے جب دونوں ملکوں کے درمیان تجارت کے معاملات کو طے کرنے کے لیے بات چیت آخری مراحل میں ہے۔ اس سے یہ بات واضح ہو گئی ہے کہ امریکا کی طرف سے بھارت پر بھاری محصولات عائد کرنے کا معاملہ بھی بھارت کی سہولت کے مطابق طے پا جائے گا۔
صدر ٹرمپ کی ان ڈرامائی حرکتوں سے ایک تاثر یہ ملتا ہے کہ وہ پاکستان اور بھارت کے درمیان امریکا سے زیادہ سے زیادہ قریب ہونے کی دوڑ شروع کرانا چاہتے ہیں۔ طیارے گرنے کے بار بار ذکر کے بعد اب امریکا بھارت معاہدے کی سب سے خاص بات یہ ہے کہ بھارت کو امریکی اسلحے تک رسائی حاصل ہو سکتی ہے اور اس کے لیے جدید ترین امریکی طیارے F-35 ملنے کی راہ بھی ہموار ہو جائے گی۔
اسی طرح امریکا کی کوشش ہو گی کہ اسلحہ کے لیے بھارت کے روس پر انحصار کو ختم کرا دے۔ نئی صورتحال میں پاکستان اور چین کے لیے پیغام ہے کہ خطے میں امریکی مفادات کی حفاظت کے لیے بھارت پر امریکی انحصار کا تصور برقرار ہے۔ پاکستان کے لیے سب سے اہم یہ ہے کہ امریکی مفاد میں کسی نئی جنگ یا محاذ آرائی کا حصہ نہ بنے۔