ہیں کواکب کچھ

’’یہ جوکچھ بھی ہو رہا ہے، اس کی اصل جڑ کوئی اور ہے۔ کہیں اور سے اس کی سازش کی گئی ہے۔‘‘

’’کہاں سے کی گئی ہے؟‘‘

’’امریکا سے ۔۔۔۔ اور کہاں سے۔ بھئی! امریکا وہ ملک ہے جو دنیا میں اپنے سوائے کسی کو بڑھتا ہوا یا بڑھا ہوا، طاقتور دیکھنا ہی نہیں چاہتا۔ اس کا یہ سوچنا ہے کہ دنیا بھر میں جو بھی قیمتی ذخائر ہیں اس پر صرف اور صرف اس کا ہولڈ ہونا چاہیے کیونکہ وہ سپرپاور ہے۔‘‘

’’گویا جو کچھ افغانستان، سوڈان، چین پاکستان دنیا بھر میں ہو رہا ہے اس کے پیچھے امریکا ہے۔‘‘

’’بالکل۔۔۔۔ یہ ایک پراسرار ملک ہے، اس نے ذہنی، نفسیاتی، طاقت اور دوسری غیر مرئی طاقتوں کے ذریعے پوری دنیا کو اپنا اسیر بنا رکھا ہے۔‘‘

’’غیر مرئی طاقتوں سے کیا مراد ہے؟‘‘

’’جنات اور کون؟‘‘

’’جنات بھی امریکا سے متاثر ہیں، لیکن انھیں تو ویزے کی سہولت نہیں چاہیے، وہ تو بنا ٹکٹ کے ہی اڑ کر ادھر سے اُدھر چلے جاتے ہیں، آنکھ بند کریں تو افغانستان اور آنکھ کھولیں تو سوڈان۔ کبھی بھارت تو کبھی فلسطین۔‘‘

’’یہ مذاق نہیں ہے، سچ ہے، اس میں ان کا ساتھ قدرت دے رہی ہے۔‘‘

’’یعنی قدرت بھی امریکا کے ساتھ ہے۔‘‘ صد حیرت۔

’’بالکل ہم مسلمانوں نے اپنے رب کو ناراض کیا ہے۔۔۔۔ اتنا تو ماننا ہے ناں۔‘‘

’’ٹھیک یہ بات سمجھ میں آتی ہے۔‘‘

’’جب ہم اپنے رب کو ناراض کرتے ہیں تو بدلے میں ہمیں کیا ملتا ہے۔۔۔۔ نقصان؟‘‘

’’لیکن سعودی عرب کے پاس تو ماشا اللہ بڑی دولت ہے، وہ تو ہمارے مقابلے میں پکے مسلمان ہیں، کم از کم ہم پاکستانی مسلمانوں کے مقابلے میں۔‘‘

’’ زیادہ دولت بھی تو ہلاکت ہے ناں۔۔۔۔ ہر طرف اونچی اونچی سونے کی دیواریں ہیں، تو ان دیواروں کے پار کون دیکھے، ان دیواروں کی حفاظت کون کرے، ان دیواروں کی حفاظت کے لیے گارڈ رکھے گئے ہیں۔ ان کا تعلق کہاں سے ہے؟‘‘

’’یہ تو بڑی عجیب سی بات ہے، وہاں پر تو ہماری بہادری کے نعرے لگتے ہیں۔‘‘

’’بالکل، نعرے لگتے ہیں کیوں کہ گارڈز کہتے ہیں کہ نعرہ اونچا لگتا ہے، تو دیکھو اتنا اونچا نعرہ لگایا کہ پاکستان تک سنا گیا۔ پھر گارڈ نے کیا کام کیا، اس نے بھارت سے دس سال کا دفاعی معاہدہ کر لیا کیوں؟‘‘

’’کیوں؟‘‘

’’سیدھی بات ہے کہ یہود و نصاریٰ ہمارے دوست نہیں ہو سکتے یوں۔ زیادہ چھان پھٹک کی نہ پہلے ضرورت تھی اور نہ اب ضرورت ہے، اور شاید ۔۔۔۔ شاید یہاں اس بات کو پہلے ہی سمجھ لیا گیا تھا کہ ماضی میں بھی امریکا نے ہمیں رلایا تھا اور ہماری جنگ میں مدد نہ کی تھی اور اب امیر لوگ ہیں وہ ظاہر ہے، امیر کا سکہ تو چلتا ہے، تو چلا اور ہم نے بھی خوشیاں منائیں۔

پر یہ کیا تم ادھر ہماری تعریفیں کرتے ہو، ادھر ان کا ٹیرف بڑھاتے ہو، تم ان کے طیارے گراتے ہو، ہمیں شاباشیاں دیتے ہو اور پھر ان سے جنھیں تم نرم دل مانتے ہو، معاہدہ کرتے ہو، یہ کیا۔۔۔۔۔ یہ کیا ہے۔‘‘

’’سیاست۔‘‘

’’نہ یہ سیاست ہے نہ یہ حکمت عملی ہے، یہ ایک بات ہے جو کل بھی تھی، صدیوں پہلے بھی تھی اور آج بھی ہے، پتھر پر لکیر کی طرح کہ یہود و نصاریٰ ہمارے دوست نہیں ہو سکتے۔ یہ منہ منہ پر ہماری باتیں کرتے، تعریفیں کرتے، مسکراتے، پر اندر اندر ان کے صرف نفرت، عداوت اور حسد چلتا ہے یہ لکھ لو۔‘‘

’’آپ کو اتنا یقین ہے؟‘‘

’’مجھ کو نہیں یقین کسی پر، لیکن قرآن پر ہے جہاں صاف لکھا ہے کہ ’’اے ایمان والو! یہود و نصاریٰ کو دوست نہ بناؤ، وہ آپس میں ایک دوسرے کے دوست ہیں۔‘‘

’’یہ تو ہے، یہ کنفرم ہے سورۃ المائدہ میں ہے۔‘‘

’’آپ ایسے لوگوں کو اوپر رکھتے ہو یا رکھنے پر مجبور ہو۔۔۔۔ اس مجبوری کو ختم کرو یار۔‘‘

’’کیسے ختم کریں اس مجبوری کو۔ وہ تو بہت طاقتور ہیں، پیسہ بھی ہے ان کے پاس۔‘‘

’’ہمارے پاس سونے کے ذخائر ہیں اور کیسی کیسی قیمتی دھاتیں ہیں۔‘‘

’’مسائل بھی تو ہیں ناں۔‘‘

’’مسائل کیوں ہیں یہ بتائیں؟‘‘

جواباً ایک گہرا سانس۔

’’بتائیں مسائل کیوں ہیں، ہماری حماقتوں، لالچ، حرص، بددیانتی کی وجہ سے ہیں ناں۔ اور یہی وہ باتیں ہیں جن سے رب ناراض ہے، ادھر ایسا نہیں ہے کہ بات صرف اپنے ملک کی ہو رہی ہے، دنیا میں دیکھ لیں مسلمان ممالک کی حالت، کیا مسائل ہیں، ابھی سوڈان میں کیا ہو رہا ہے، سونا زمین ہے، پر وہاں کیا ہو رہا ہے؟‘‘

’’یہ تو ہے سوڈان سونے کی پیداوار کے لحاظ سے دنیا کا تیسرا بڑا ملک ہے۔‘‘

’’پر یہ دولت کیا دے رہی ہے وہاں کی عوام کو، دکھ، تکلیف، اپنوں کا خون۔۔۔۔ تو ایک بات تو طے ہے کہ ہمیشہ دولت انسان کو سکھ نہیں دے سکتی۔ سونا نہیں کھا سکتے وہاں کے مظلوم عوام، وہ اپنی جان نہیں بچا پا رہے، یا اور کون کروا رہا ہے یہ؟‘‘

’’ آپس میں لڑ رہے ہیں دو گروپ۔‘‘

’’ اس میں کون ملوث ہیں بھئی! یہ ایک اسٹیج سجا ہے بھئی! جہاں حقیقت میں خونی ڈرامہ شوٹ ہو رہا ہے اور تماشائی بنے ہیں، یہ ساری دنیا کے امیر بڑے ملک جو کہتے ہیں کہ بھئی! لڑائی ختم کراؤ۔۔۔ ختم کراؤ پر یہ چاہتے ہیں کہ سوڈانی بھائی سب مر جائیں۔

ان کو اتنا لڑاؤ وہ جیسے مرغوں کی لڑائی ہوتی ہے ناں، سب اچھل اچھل کر اپنے بولی والے مرغے کو آوازیں لگاتے ہیں، ایسے ہو رہا ہے، پر اندر سے سب چاہتے ہیں کہ سونے کی کانیں رہ جائیں اور اس پر بسنے والے یہ غریب کم رنگت، کم شکل کے لوگ۔ یہ اس کے حق دار نہیں ہیں، یہ تو گاڈ نے ان بڑے گورے، سنہرے بالوں والے نیلی ہری آنکھوں والوں کے لیے پیدا کیا ہے، بس یہ بات ہے!‘‘

بول بول کر ان کا حلق خشک ہوا تو پانی کا گلاس اٹھایا۔

’’اس طرح تو فلسطین میں بھی ایسا ہی ہو رہا ہے۔ مطلب آپ نے جو خیال پیش کیا ہے اس کے مطابق۔‘‘

’’ریزورٹ۔‘‘

’’فلسطین میں ریزورٹ۔‘‘

’’فلسطین کو ریزورٹ بنانا چاہتے ہیں بھئی! یہ تو کھلی بات ہے اور باقاعدہ اخبار و رسائل پر تحریر تھا کہ ٹرمپ کا داماد جو یہودی ہے، بلڈر ہے وہ وہاں یہ کرنا چاہتا ہے۔ اس کے خیال میں قیمتی زمین ہے، اب اس پر سے کچرا وچرا صاف کرنا ہے تو وہ یہ کروا رہے ہیں۔‘‘

’’لیکن اس کے لیے تو جنگ بندی کا معاہدہ۔۔۔۔!‘‘

’’کیا معاہدہ، آج کی خبریں دیکھو، کتنے فلسطینی شہید ہوئے۔ ہے کسی میں اتنی جرأت جو پوچھے کہ بھائی جنگ بندی کے بعد کون بم برسا کر مارتا ہے۔‘‘

جواباً پھر ایک گہرا سانس۔

’’کسی میں ہمت نہیں ہے کہ بددیانتی تو ان کا شیوہ ہے، جسے ہم مسلمانوں نے بھی بڑے طمطراق سے اپنا لیا ہے، اب بھگتو۔‘‘

خاموشی سی چھا گئی تھی، پھر وہ خود ہی بولے۔

’’یقین کرو ہم سب بھگت رہے ہیں اور اونچے دربار والے بھی بھگتیں گے وہ نہ سمجھیں کہ انھیں چھوڑ دیا جائے گا، ابھی تو انھیں سہلایا جا رہا ہے یہ ایک بڑے طوفان کی نشان دہی بھی ہے۔‘‘

’’قیامت قریب ہے؟‘‘بے اختیار ہنسی ابھری۔

’’ابھی قیامت نہیں آنی، ابھی تو قیامت سے پہلے کہ وہ کہتے ہیں ناں پریلیم، ابتدائی امتحانات، وہ چل رہے ہیں۔ سوچو ہم اس دور میں قیامت کے پریلیم سے گزر رہے ہیں، سوڈان کو چپکے چپکے مارا جا رہا ہے، فلسطینی ختم کیے جا رہے ہیں، بھارت سے دفاعی معاہدہ کیا، افغانستان سے ہماری لڑائی، اسے ہمارے خلاف استعمال کیا جا رہا ہے۔‘‘

’’یہ تو ایک لمبی بحث ہو جائے گی۔‘‘

’’یہ لمبی بحث ہے، ہم سب کبوترکی طرح آنکھیں بند کرکے بیٹھے ہیں، آنکھیں کھولنی ہوں گی، بددیانتی سے نجات حاصل کرنا ہوگی جو ہمارے لیے بہت مشکل ہے، بس بات ختم۔ ہم سب مسلم امہ بددیانتی کو نہیں چھوڑ سکتے۔ 

یہود و نصاریٰ کو اپنے ان مسائل کے حل کے لیے کھڑا کرتے ہیں ، ارے بھئی! وہ خود کھڑے ہو جاتے ہیں، ہماری ہمت نہیں کہ کہہ سکیں بھائی! ہم آپ کو ثالث نہیں بنا سکتے، ہمارے لیے آپ منع ہو، پر ہماری مجبوریاں۔‘‘ دن ڈھل رہا تھا، رات کے دھندلکے روزانہ کی مانند پھیل رہے تھے۔

پر ہم پھر بھی پُرامید ہیں کہ ناامیدی، مایوسی کفر ہے۔ یہ سوچ کر اپنی اپنی راہ لی۔

Similar Posts