کتاب دوستی: عالمی رجحانات اور پاکستان کی صورت حال

سی ای او ورلڈ (CEO WORLD) میگزین کی 2024 کی رپورٹ کے مطابق، امریکا دنیا کا سب سے زیادہ کتابیں پڑھنے والا ملک ہے، جہاں ہر شخص سالانہ اوسطاً 17 کتابیں پڑھتا ہے، جب کہ بھارت اس فہرست میں 16 کتابوں کے ساتھ دوسرے نمبر پر ہے۔ دیگر ممالک جن میں مطالعے کا مضبوط رجحان پایا جاتا ہے۔

 ان میں برطانیہ (15 کتابیں)، فرانس (14)، اور اٹلی (13) شامل ہیں۔ جب کہ پاکستان میں ایک عام فرد سالانہ اوسطاً صرف دو سے تین کتابیں پڑھتا ہے۔ ان ممالک میں اعلیٰ شرحِ خواندگی اور مضبوط پبلک لائبریری نظام کی بدولت گہری ادبی روایات پروان چڑھی ہیں۔ یورپ میں فن لینڈ اور ڈنمارک بھی مطالعے کے شوق میں نمایاں ہیں؛ 2024 میں فن لینڈ میں لائبریری کا ریکارڈ استعمال درج کیا گیا، جہاں ہر شہری نے اوسطاً 9 بار لائبریری کا دورہ کیا اور 15 کتابیں ادھار لیں۔ دوسری جانب ڈنمارک نے ’’مطالعے کے بحران‘‘ سے نمٹنے کے لیے کتابوں پر عائد 25 فیصد ویلیو ایڈیڈ ٹیکس ختم کرنے کی تجویز دی تاکہ خاص طور پر نوجوانوں کے لیے ادب کو مزید قابلِ رسائی بنایا جا سکے۔

لوگ مختلف وجوہات کی بنا پر کتابیں پڑھتے ہیں، جیسے کہ علم حاصل کرنا، تخیل کی دنیا میں کھو جانا، ذہنی سکون پانا، مہارتوں میں اضافہ کرنا، اور دنیا سے باخبر رہنا۔ مطالعہ دماغ کو متحرک کرتا ہے، توجہ میں بہتری لاتا ہے، سوچ کے دائرے کو وسیع کرتا ہے اور ذاتی و علمی ترقی میں مدد دیتا ہے۔

سوشل میڈیا کے مقابلے میں، جو عموماً مختصر، توجہ بٹانے والا اور بعض اوقات گمراہ کن مواد پیش کرتا ہے، کتابیں زیادہ گہرے مطالعے، مضبوط ارتکاز، اور معنوی فہم کا موقع فراہم کرتی ہیں۔ اگرچہ سوشل میڈیا لوگوں کو آپس میں جوڑے رکھتا ہے، لیکن کتاب خوانی تخلیقی سوچ، تنقیدی تجزیے، اور زندگی کے بارے میں غور و فکر کو فروغ دیتی ہے۔

پرنٹ کتابیں اب بھی کئی لوگوں کو، خاص طور پر بڑی عمر کے قارئین، اپنی چھو جانے والی حقیقت پسندی کے باعث پسند ہیں، مگر نوجوان نسل میں ای بکس اور آڈیو بکس کی مقبولیت تیزی سے بڑھ رہی ہے کیونکہ یہ سہولت اور پورٹیبلٹی فراہم کرتی ہیں۔ آج زیادہ تر لوگ اپنی عاداتِ مطالعہ اور طرزِ زندگی کے مطابق ان دونوں فارمیٹس کو ملا کر پڑھنے کو ترجیح دیتے ہیں۔

اگرچہ مطالعے کی عادات میں تبدیلی آئی ہے اور ڈیجیٹل میڈیا، اسمارٹ فونز، اور سوشل نیٹ ورکس لوگوں کی توجہ کے لیے مقابلہ کر رہے ہیں، مگر مطالعے کا شوق ختم نہیں ہوا بلکہ ای بکس، آڈیو بکس، اور آن لائن پلیٹ فارمز کے ذریعے جدید طرزِ زندگی کے مطابق ڈھل گیا ہے۔ اس تبدیلی نے مطالعے کو نہ صرف زیادہ قابلِ رسائی بنایا ہے بلکہ اس کی شکل اور مقصد کو بھی زیادہ متنوع کر دیا ہے۔ باقاعدہ مطالعہ اب بھی تخلیقی صلاحیت، تجزیاتی سوچ، اور علم کو فروغ دیتا ہے، جو تحقیق کے کلچر کو مضبوط اور جدت طرازی کو فروغ دیتے ہیں۔ جب افراد نئی سوچوں اور عالمی نظریات کا مطالعہ کرتے ہیں تو وہ تکنیکی ترقی، کاروباری اختراعات، اور معاشی ترقی میں حصہ ڈالتے ہیں۔ لہٰذا، مضبوط مطالعے کی عادات کو برقرار رکھنا ذہنی ترقی، تحقیقی معیار، اور پائیدار قومی ترقی کے لیے نہایت ضروری ہے۔

تحقیقات سے ظاہر ہوتا ہے کہ مضبوط مطالعے کی عادات لائبریریوں کے استعمال میں نمایاں اضافہ کرتی ہیں، کیونکہ باقاعدگی سے پڑھنے والے افراد اکثر کتابوں، تحقیق، اور ڈیجیٹل مواد کے حصول کے لیے لائبریریوں کا رخ کرتے ہیں۔ امریکا میں تقریباً 56 فیصد افراد جن کی عمر 16 سال یا اس سے زیادہ ہے، ہر سال لائبریری خدمات سے استفادہ کرتے ہیں، خواہ وہ ذاتی طور پر جائیں یا آن لائن ذرائع سے فائدہ اٹھائیں، جبکہ 30 سال سے کم عمر نوجوان سب سے زیادہ فعال صارف ہیں۔ امریکی لائبریریاں مفت انٹرنیٹ اور کمپیوٹر سہولت فراہم کرنے میں بھی اہم کردار ادا کرتی ہیں، جہاں ملک بھر میں تقریباً 9,000 عوامی لائبریریاں اور 17,000 سے زائد شاخیں کام کر رہی ہیں۔ لائبریری آف کانگریس، جو 1800 میں قائم ہوئی، دنیا کی سب سے بڑی لائبریری ہے، جس میں 173 ملین سے زائد مواد محفوظ ہے جن میں کتابیں، مخطوطات، نقشے، تصاویر، فلمیں، اخبارات اور ڈیجیٹل ذرائع شامل ہیں۔

یورپ میں تقریباً 50 سے 60 فیصد لوگ سالانہ لائبریریوں کا دورہ کرتے ہیں، جبکہ نارڈک ممالک (ڈنمارک، فن لینڈ، آئس لینڈ، ناروے، سویڈن اور گرین لینڈ) میں سب سے زیادہ شرکت دیکھی گئی ہے۔ بڑی لائبریریاں جیسے برٹش لائبریری، ببلوتھیک نیشنل (فرانس)، اور ویٹیکن لائبریری صدیوں پر محیط علمی و ثقافتی ورثے کو محفوظ کیے ہوئے ہیں۔ آسٹریلیا میں تقریباً 75 فیصد افراد ہر سال کم از کم ایک کتاب پڑھتے یا سنتے ہیں، اوسطاً چھ کتابیں عوامی لائبریریوں سے ادھار لیتے ہیں، اور وبا کے بعد ڈیجیٹل مطالعے میں نمایاں اضافہ دیکھا گیا ہے۔ یہ عالمی رجحانات ظاہر کرتے ہیں کہ مضبوط مطالعے کی عادات نہ صرف علم اور جدت کو فروغ دیتی ہیں بلکہ لائبریری کے استعمال، تحقیقی سرگرمیوں، اور قومی ترقی میں بھی اہم کردار ادا کرتی ہیں۔

بھارت دنیا کے اْن ممالک میں شامل ہے جہاں لوگ مطالعے کے شوق میں سب سے آگے ہیں۔ 2024 کیسی ای او ورلڈ میگزین کی رپورٹ کے مطابق، ایک عام بھارتی سالانہ اوسطاً 16 کتابیں پڑھتا ہے اور تقریباً 352 گھنٹے مطالعے میں صرف کرتا ہے، جو اسے امریکا کے بعد دوسرے نمبر پر رکھتا ہے۔ ملک کی رنگا رنگ ادبی ثقافت کو ایک مضبوط پبلشنگ انڈسٹری نے فروغ دیا ہے جو ہر سال مختلف زبانوں میں تقریباً 90,000 نئی کتابیں شائع کرتی ہے، جو بھارت کے لسانی تنوع اور بڑھتی ہوئی مڈل کلاس کی عکاسی کرتی ہیں۔ مطالعے کی عادات میں کافی فرق پایا جاتا ہے — کچھ افراد سالانہ 60 سے 70 کتابیں پڑھتے ہیں، جبکہ بہت سے لوگ 10 سے 20 کتابوں کا ہدف رکھتے ہیں۔ بھارت کی مطالعہ دوست روایت کو کہانی سنانے، ادب سے وابستگی، اور تعلیمی اداروں کی بدولت مزید تقویت ملی ہے جو ذہنی نشوونما کے لیے مطالعے کو اہم سمجھتے ہیں۔

نیشنل بک ٹرسٹ اور سہتیہ اکادمی جیسے قومی ادارے، کتاب میلوں، ادبی تقریبات، اور اشاعتی منصوبوں کے ذریعے ادب سے عوامی وابستگی کو فروغ دیتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ سمارٹ فونز اور سستی انٹرنیٹ سہولتوں کے پھیلاؤ نے ای بکس اور آڈیو بکس تک رسائی میں نمایاں اضافہ کیا ہے۔ کنڈل، پرتلیپی، اور دیگر آن لائن ریڈنگ پلیٹ فارمز نے مطالعے کو خاص طور پر نوجوان نسل کے لیے زیادہ آسان اور پرکشش بنا دیا ہے۔

تازہ ترین سروے کے مطابق، پاکستان میں مطالعے کی شرح کافی کم ہے، جہاں ایک عام فرد سالانہ اوسطاً صرف دو سے تین کتابیں پڑھتا ہے۔ گیلپ پاکستان کی تحقیق سے ظاہر ہوتا ہے کہ تقریباً 75 فیصد پاکستانی نصابی کتابوں کے علاوہ کوئی کتاب نہیں پڑھتے، جو تفریحی یا علمی مطالعے میں کم دلچسپی کو ظاہر کرتا ہے۔ اگرچہ ڈیجیٹل میڈیا اور سوشل نیٹ ورکس معلومات کے اہم ذرائع بن چکے ہیں، لیکن روایتی مطالعے میں کمی خواندگی، کتابوں تک محدود رسائی، اور مطالعے کے کلچر میں چیلنجز کی عکاسی کرتی ہے۔ مطالعے کی عادات کو فروغ دینا تعلیم، تحقیق، اور قومی ترقی کے لیے نہایت ضروری ہے۔

پاکستان میں مضبوط مطالعہ کلچر قائم کرنے کے لیے ضروری ہے کہ کتابوں تک رسائی کو بڑھایا جائے — عوامی اور موبائل لائبریریوں، ڈیجیٹل پلیٹ فارمز، اور خواندگی کے پروگراموں کے ذریعے، خاص طور پر بچوں اور خواتین کو ہدف بنا کر۔ اسکولوں میں دلچسپ مطالعہ سرگرمیوں کو شامل کیا جانا چاہیے اور مقامی ادب کو فروغ دینا چاہیے تاکہ مطالعہ زیادہ پرکشش اور قابلِ تعلق بنے۔ عوامی مہمات، سوشل میڈیا، اور کمیونٹی بک کلبز کے ذریعے نوجوانوں میں مطالعے کی دلچسپی پیدا کی جا سکتی ہے۔

لائبریریاں مزید قارئین کو متوجہ کر سکتی ہیں اگر وہ اپنے اوقاتِ کار میں اضافہ کریں، مفت وائی فائی، ورکشاپس، اور ریڈنگ سرکلز جیسی سرگرمیاں خوشگوار ماحول میں منعقد کریں۔ تعلیمی اداروں، لائبریریوں، اور سماجی تنظیموں کے درمیان اشتراک سے مطالعہ کو روزمرہ زندگی کا حصہ بنایا جا سکتا ہے، جبکہ ای لائبریریز اور اردو و علاقائی زبانوں میں سستی اشاعت کے ذریعے مطالعے کو زیادہ جامع اور سب کے لیے قابلِ رسائی بنایا جا سکتا ہے۔

والدین کو چاہیے کہ وہ اپنے بچوں کے ساتھ مطالعہ کریں اور کہانی سنانے کی روایات کو فروغ دیں تاکہ بچپن سے ہی تجسس اور سیکھنے کی عادت پروان چڑھے۔ ایسے اقدامات نہ صرف علم، رابطے، اور تنقیدی سوچ کو بڑھائیں گے بلکہ پاکستان کی سماجی ترقی، جدت، اور طویل المدتی قومی پیش رفت میں بھی اہم کردار ادا کریں گے۔

(مصنف کا تعارف: ڈاکٹر محمد زاہد رضا، جامعہ پنجاب (لاہور) سے منسلک ماہر تعلیم اور محقق ہیں۔ تحقیقی جرائد میں ان کے کئی مقالے شائع ہو چکے ہیں۔ وہ اخبارات کے لیے بھی مضامین لکھتے ہیں)

 

Similar Posts