یونیورسٹی آف ڈنڈی کی پروفیسر آئیرس گرنوالڈ نے ریموٹ تھرومبیکٹومی (خون کے لوتھڑے کو ہٹانے) کا عمل کیا جو اسٹروک کے بعد کی ایک پیچیدہ سرجری ہے۔
پروفیسر گرنوالڈ نے یہ آپریشن نائن ویلز اسپتال ڈنڈی سے کیا، جبکہ انسانی جسم یونیورسٹی کے دوسرے حصے میں رکھا گیا تھا۔
کچھ گھنٹوں بعد فلوریڈا میں مقیم نیوروسرجن ریکارڈو ہیئیل نے جیکسن ویل سے دنیا کی پہلی ٹرانس ایٹلانٹک روبوٹک سرجری کی۔ یہ آپریشن 4,000 میل (6,400 کلومیٹر) دور ڈنڈی میں ایک انسانی جسم پر کیا گیا۔
اس ٹیم نے اس کامیابی کو گیم چینجر قرار دیا اور کہا کہ اگر اسے کلینیکل استعمال کے لیے منظور کیا جاتا ہے تو یہ اسٹروک کی دیکھ بھال کے نظام میں انقلاب لا سکتا ہے خصوصاً ایسے علاقوں میں جہاں ماہر ڈاکٹروں کی کمی ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ ریموٹ طریقہ کار سے اسپیشلسٹ ڈاکٹروں کو دور دراز علاقوں میں مریضوں کا علاج کرنے کا موقع ملے گا جس سے علاج میں تاخیر کی وجہ سے ہونے والی پیچیدگیاں کم ہو سکتی ہیں۔
پروفیسر آئیرس گرنوالڈ نے کہا کہ یہ ایسا لگا جیسے ہم مستقبل کی پہلی جھلک دیکھ رہے ہیں جو پہلے سائنس فکشن سمجھا جاتا تھا ہم نے دکھا دیا کہ اس سرجری کا ہر مرحلہ اب ممکن ہے۔
یونیورسٹی آف ڈنڈی جو عالمی سطح پر عالمی فیڈریشن فار انٹرونشنل اسٹروک ٹریٹمنٹ کے لیے تربیتی مرکز ہے برطانیہ کا واحد ادارہ ہے جہاں ڈاکٹر انسانی جسم پر ایسا آپریشن کر سکتے ہیں جس میں خون کی گردش کو مائع کے ذریعے انسانی خون کے بہاؤ کی طرح نقل کیا جاتا ہے۔
پروفیسر گرنوالڈ نے کہا کہ یہ پہلی بار تھا جب ہم نے پوری میکانکی تھرومبیکٹومی سرجری ایک اصلی انسانی جسم پر کی جس سے یہ ثابت ہوا کہ سرجری کے تمام مراحل ممکن ہیں۔
اسٹروک ایسوسی ایشن کی چیف ایگزیکٹیو جولیت بوورئی نے اس ٹرانس ایٹلانٹک آپریشن کو ایک شاندار ایجادات قرار دیا۔
انہوں نے کہا کافی عرصے تک دور دراز اور دیہی علاقوں میں رہنے والے افراد کو تھرومبیکٹومی جیسی اہم سرجری سے محروم رکھا گیا لیکن اب روبوٹک سرجری اس عدم مساوات کو دور کرنے میں مددگار ثابت ہو سکتی ہے۔
تحقیقی ماہرین کا کہنا ہے کہ اس کامیاب تجربے کے بعد ریموٹ اسٹروک کیئر کے عالمی سطح پر استعمال کا امکان بڑھ گیا ہے جس سے مریضوں کو طویل سفر کیے بغیر زندگی بچانے والی سرجری مل سکے گی۔