جسٹس محسن اختر کیانی نے کہا کہ 27ویں ترمیم ہو رہی ہے، اسلامی نظریاتی کونسل بھی اپنے اختیارات میں اضافہ کروا لیتی، اسلامی نظریاتی کونسل بھی تجاویز بھیجوا دیتی، اختیارات بڑھ جاتے۔
عدالت نے کہا کہ اس کیس کا فیصلہ بھی اسی ماہ کر سکتے ہیں، ترمیم کے بعد تو شاید یہ اختیار بھی نہ رہے۔
عدالت نے نمائندہ نظریاتی کونسل سے استفسار کیا کہ کیا اسلامی نظریاتی کونسل ایک ایڈوائزری باڈی ہے؟ رائے دینے کے لیے کس نے آپ کو اپروچ کیا؟
جسٹس محسن اخترکیانی نے کہا کہ اگر ہم کچھ کریں گے تو ملک میں ایک نیا ٹرینڈ شروع ہو جائے گا، پارلیمان کے پاس ایک طاقت ہے اور وہ خودمختار ہیں۔
عدالت نے استفسار کیا کہ کیا نظریاتی کونسل مقننہ، صدر یا صوبے کے گورنر کے علاوہ کس کو رائے دے سکتی ہے؟ کونسل حکام نے جواب دیا کہ اسلامی نظریاتی کونسل کے چیئرمین نے ہی جواب دینا ہے، وہ تعینات ہوں گے تو دیں گے، نظریاتی کونسل کے چیئرمین کی تعیناتی ابھی نہیں ہوئی، وقت دیا جائے۔
جسٹس محسن اختر کیانی نے استفسار کیا کہ کیا نئی تعیناتی کی سفارش بھیج دی گئی ہے؟ کونسل حکام نے کہا کہ جی سفارش گئی ہوئی ہے، امید ہے جلد تعیناتی ہو جائے گی۔
اسلامی نظریاتی کونسل کی رائے معطل کرنے کی درخواست گزار کی استدعا پر فیصلہ محفوظ کرلیا۔
اسلامی نظریاتی کونسل نے نامکمل جواب عدالت میں جمع کرایا جس پر عدالت نے مکمل جواب جمع کرانے کی ہدایت کی۔
عدالت عالیہ نے اسلامی نظریاتی کونسل کو دائرہ اختیار سے متعلق مطمئن کرنے کی ہدایت اور سماعت 4 دسمبر تک ملتوی کر دی۔