استثنیٰ یکساں نظام انصاف کے بنیادی فلسفہ کی بھی نفی ہے۔ یکساں نظام انصاف کے فلسفہ کی بنیاد ہی یہ ہے کہ انصاف سب کے لیے، کوئی انصاف سے باہر نہیں۔ لیکن جب آپ کسی کو استثنیٰ دیتے ہیں تو آپ اس کے حوالے سے انصاف کے دروازے بھی بند کر دیتے ہیں۔
اس کو مقدس گائے بنا دیتے ہیں جب کہ یکساں نظام انصاف میں مقدس گائے کا کوئی تصور نہیں۔ اس لیے میری رائے میں استثنیٰ اور تا حیات استثنیٰ یکساں نظام انصاف کی بنیاد کی روح کے برعکس ہے۔ اس کی حمائت نہیں کی جا سکتی۔ سب کو آئین و قانون کے سامنے یکساں جوابدہ ہونا چاہیے۔ کسی کو کسی پر ترجیح نہیں ہو سکتی، سب برابر ہیں۔ یہی ہمارے نظام انصاف کا بنیادی اصول ہے۔
یہ درست ہے کہ آئین میں صدر اور گورنر سمیت کئی عہدوں کو پہلے ہی استثنیٰ حاصل ہے۔ لیکن یہ استثنیٰ ان کے عہدہ کی مدت کے دوران حاصل تھا۔ اب اس کو تاحیات میں تبدیل کر دیا گیا ہے۔ میں دوران مدت استثنیٰ کو بھی غلط سمجھتا ہوں حالانکہ اس کی دنیا میں کئی مثالیں موجود ہیں۔ پاکستان واحد ملک نہیں تھا جہاں دوران عہدہ استثنیٰ دیا گیا تھا، کئی اور ممالک میں بھی یہ موجود ہے لیکن کئی ممالک میں موجود نہیں بھی ہے۔ مثالیں دونوں طرف موجود ہیں۔ دیکھنا یہ ہے کہ ہمارے ملک کے لیے کیا بہتر ہے۔ کیا ہمارے ملک کے لیے استثنیٰ بہتر ہے یا ہمارے ملک کے لیے قانون کی عملداری بہتر ہے۔
یہ بھی درست ہے کہ ہمارے ملک میں سیاسی انتقامی کارروائیوں کا بہت رجحان ہے۔ آپ اقتدار سے نکلتے ہیں تو انتقامی کارروائیاں شروع ہو جاتی ہیں۔ مقدمات بن جاتے ہیں۔ اس لیے سب چاہتے ہیں کہ اقتدار سے نکلنے کے بعد انتقامی کارروائی کا نشانہ بننے سے بچ جائیں۔ عزت سب کی محفوظ ہونی چاہیے۔ اب تو صورتحال یہ ہے کہ یا تو آپ اقتدار میں ہیں یا جیل میں ہیں۔ درمیان کا کوئی راستہ ہے ہی نہیں۔ آپ وزیر اعظم ہیں اور پھر جیل میں ہیں، آپ صدر ہیں پھر جیل میں ہیں، آپ وزیر ہیں پھر جیل میں ہیں۔ اس لیے دلیل یہ دی جا رہی ہے کہ استثنیٰ ناگزیر ہے، تاحیات استثنیٰ کے لیے بھی یہی دلیل دی جا رہی ہے۔لیکن میں سمجھتا ہوں یہ ایک کمزور دلیل ہے۔اس کی بنیاد پر تاحیات استثنیٰ کی آئینی ترمیم کو جائز قرار نہیں دیا جا سکتا۔
آپ دیکھیں جب بانی پی ٹی آئی اور ان کی حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش ہوئی تو صدر مملکت عارف علوی نے اسمبلیاں غلط توڑ دیں کیونکہ انھیں آئینی استثنیٰ حاصل تھا۔ ان کے خلاف آئین توڑنے کی کارروائی نہیں ہو سکتی تھی۔ اسی طرح جب عمر سرفراز چیمہ گورنر پنجاب تھے‘ انھوں نے وزیر اعلیٰ حمزہ شہباز سے حلف لینے سے انکار کر دیا تھا۔ وہ بھی آئین سے انحراف تھا۔ اس وقت بھی گورنر پنجاب کو آئینی تحفظ حاصل تھا۔
اس لیے ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہو سکتی تھی۔ بعدازاں بھی سپریم کورٹ نے یہ قرار دیا کہ صدر مملکت عارف علوی نے آئین سے انحراف کیا ہے تاہم ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہو سکی۔ اس لیے جہاں ایک طرف یہ دلیل ہے کہ عہدہ سے ہٹنے کے بعد انتقامی کارروائیاں ہوتی ہیں وہاں یہ دلیل بھی ہے کہ عہدہ کے دوران بھی آئین وقانون کی خلاف ورزی کی جاتی ہے اور استثنیٰ کا ناجائز فائدہ اٹھاتے ہیں۔ اس لیے دلائل دونوں طرف ہیں۔
دلائل تو دوران عہدہ استثنیٰ کے غلط استعمال کے بھی ہیں، اب تو تاحیات استثنیٰ دے دیا گیا ہے۔ میں سمجھتا ہوں یہ کوئی اچھی مثال قائم نہیں کی گئی ہے۔ انسان کو ہر وقت ملک کے آئین وقانون کے تابع ہونا چاہیے۔ آئین وقانون کے تابع ہونے سے عزت بڑھتی ہے۔ اس سے مبرا ہونے سے عزت کم ہوتی ہے۔ میں وزیر اعظم پاکستان میاں شہباز شریف کے اس فیصلہ کو خوش آیند قرار دیتا ہوں کہ انھوں نے اپنے لیے استثنی ختم کروا دیا ہے۔
انھوں نے کہا ہے کہ وہ ہر وقت احتساب کے لیے تیار ہیں۔ وہ اپنے ہر قدم کے عوام کو بھی اور آئین وقانون کو بھی جوابدہ ہیں۔ وہ پاکستان کے نظام انصاف کے سامنے جوابدہ رہنا چاہتے ہیں۔ ہمیں وزیر اعظم کے اس فیصلے کی تائید کرنی چاہیے۔ یہی درست فیصلہ ہے، ورنہ اس موقع پر جب سب بہتی گنگا میں ہاتھ دھو رہے تھے۔ وزیر اعظم پاکستان کے لیے بھی اپنے لیے استثنیٰ لینا کوئی بڑا مسئلہ نہیں تھا، ترمیم پیش بھی ہو گئی تھی۔ لیکن وزیر اعظم نے اس کو منع کر کے ایک اچھی روائت پیداکی۔ جس کی جتنی بھی تعریف کی جائے کم ہے۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ آئین میں دیے گئے استثنیٰ کو بتدریج ختم کیا جائے۔ ان میں اضافی استثنٰی کسی طرح بھی درست نہیں۔ آپ کو آئین وقانون کے تابع رہنے کا خوف رہنا چاہیے۔ آپ کو تاحیات آئین وقانون کا پابند رہنا چاہیے۔ یہ کیسی زندگی ہے کہ آپ آئین وقانون کے تابع ہی نہیں ہیں۔ آپ کسی ضابطے کے پابند ہی نہیں ہیں۔ آپ جو مرضی کریں آپ سے کوئی پوچھ ہی نہیں سکتا۔ یہ کسی مہذب معاشرہ کی نشانی نہیں ہے۔ اس کو درست قرار نہیں دیا جا سکتا۔ آج یہ ترامیم منظور تو ہو رہی ہیں لیکن مجھے ان کی عوامی قبولیت کم ہی نظر آرہی ہے۔ آج نہیں تو کل انھیں ختم کرنا ہی پڑے گا۔ ورنہ یہ ہمارے آئین پر ایک داغ کی طرح رہیں گی۔