وزیر دفاع خواجہ آصف نے پروگرام سینٹر اسٹیج میں گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ نئے نوٹیفیکیشن کے بعد آرمی چیف اور سی ڈی ایف کی ٹرم ایک ساتھ شروع ہوں گی جو 27 نومبر2025 کو شروع ہوگی۔
ان کا کہنا تھا کہ سی ڈی ایف کا عہدہ ہر جگہ ہے، کیا یہ عہدہ برطا نیہ اور امریکا میں نہیں ہے؟ ہمارے لیے دونوں چیفس قابل فخر ہیں ، انہو ں نے جنگ جیتی ہوئی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ایسا بالکل نہیں ہے کہ ایک عہدے کو بہت پاور فل کر دیا گیا ہے، آئندہ نئے آرمی چیف کی تعیناتی کے حوالےسے ساری سمریاں وزارت دفاع کی طرف سے بھیجی جائیں گی۔
خواجہ آصف نے کہا کہ وزارت دفاع کا ایک سویلین انچارج ہے جو پارلیمنٹ اور وزیر اعظم کو جوابدہ ہے ۔ جو تاثر پھیلایا جا رہا ہے اس حوالے سے کوئی تحریری ثبوت دکھائے جائیں جبکہ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ کمانڈ کی تعیناتی جس طرح سے ہوتی ہے اسی طرح رہے گی ۔
پاکستان اور افغانستان تعلقات سے متعلق سوال کا جواب دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ طالبان رجیم کہتی ہے کہ ہماری سر زمین پاکستان کیخلاف کبھی استعمال نہیں ہوئی جبکہ افغانستان سے ہماری سر زمین پر حملے ہوئے ہیں ۔
انہوں نے کہا کہ ہم طالبان رجیم سے مذاکرات میں اسی ضمانت دینے کا ہی کہتے رہے ہیں، وہ ضمانت دے دیں کہ افغان سر زمین سے پاکستان میں کبھی دہشت گردی نہیں ہوئی اور نا آئندہ ہوگی تاکہ تحریری طور پر بات سامنے آ جائے ، تحریری گارنٹی میں دیگر دوست ممالک بھی بطور ضامن آجائیں۔
خواجہ آصف نے کہا کہ افغان طالبا ضمانت دیں کہ ہماری زمین کبھی بھی آپ کیخلاف استعمال نہیں ہو گی۔
انہوں نے واضح کیا کہ اسلام آباد والا حملہ بھی افغانستان سے ہی ہوا ہے، حالیہ پچھلے دو حملوں میں 100 فیصد افغانی ملوث تھے، ایسی صورتحال میں کوئی سیٹلمنٹ ہوتے نہیں دیکھ رہا۔
وزیر دفاع خواجہ آصف نے کہا کہ افغانستان ہر لحاظ سے ایک دیوالیہ ملک ہے، نہ عدالتی اسٹرکچر ہے ، طالبان رجیم بتائے کہ افغان عوام کی زندگی میں کیا تبدیلی آئی؟ سوائے اس کے کہ ساری دنیا کے دہشت گرد افغانستان میں جمع ہو گئے ہیں۔
ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ تجارت کے لیے افغان بارڈر بند ہونا چاہیے، تجارت بند کی ہے تو ہم کیوں تجارت کھولنے کی اجازت دیں ؟، وہ ہماری سر زمین پر حملے کر رہے ہیں ،تجارت بند ہونے سے اسمگلنگ بھی بند ہو جائے گی، اگر ڈالرز کی اسمگلنگ ہوتی ہے تو وہ بھی بند ہو جائے گی۔
ججز کے استعفوں سے متعلق سوال کا جواب دیتے ہوئے خواجہ آصف نے کہا کہ استعفے دینے والے ججز استعفی اس لیے دے رہے ہیں کہ وہ پینشن اور مراعات کے لیے اپنی اپنی مدت پوری کر رہے ہیں ۔ اگر کوئی اصولی بات ہے تو بتائیں اور گھر جائیں، یہ صرف اس انتظار میں بیٹھے کہ مراعات ساری عمر لیں۔
انہوں نے کہا کہ ججز کو گاڑیاں ، گارڈز پلاٹ ، پینشن کی سہولت میسر ہے، مجھے قطعی طور پر کوئی مراعات نہیں ملتیں ، مجھے بس مہینے کی تنخواہ ملتی ہے ، میرے پاس کوئی گاڑیاں ، گارڈز نہیں ہیں۔
وفاقی وزیر نے کہا کہ ہم نے عدلیہ کے اختیارات میں کوئی تجاوز نہیں کیا، ہم نے کون سی چیز ایسی کی جس سے عدلیہ کے اختیارات ایگزیکٹو یا انتظامیہ کے پاس منتقل ہو گئے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ حکومت کی جانب سے ججز کو لگانے اور ٹرانسفر کی بات درست نہیں ہے، ججز کی تعیناتی کا طریقہ کار تبدیل نہیں ہوا جو پہلے تھا ویسے ہی ہے، ویسے ہی تعیناتی کریں گے۔ مجھے بتائیں کہ وہ کون سی ترمیم ہے جو وزیر اعظم کو اختیار دے کے جا کر ووٹ کریں۔