معروف تاریخ دان ڈاکٹر کے کے عزیز نے اس موضوع پر عرق ریز تحقیق کے بعد Murder of History کے نام سے ایک معرکتہ الآرا کتاب لکھی جس میں دلائل اور مصدقہ حوالوں سے ان متعدد اغلاط اور حقائق سے دانستہ انحراف پر مبنی واقعات کو محفوظ کرکے ناقابل تردید تاریخ کا حصہ بنا دیا۔ اس کتاب کا ترجمہ ’’تاریخ کا قتل‘‘ تاریخ کے طالب علموں کے لیے خاصے کی شئے ہے۔
تاریخ کے ساتھ اس سلوک کا نتیجہ ہے کہ تحریک پاکستان کے لٹریچر میں مشرقی پاکستان کے فیصلہ کن کردار کا ذکر تقریباً گول ہو گیا ہے۔
آل انڈیا مسلم لیگ کے فاؤنڈرز کا تذکرہ کرنا تو دور کی بات رہی، مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے بعد خواجہ ناظم الدین، حسین شہید سہروردی، مولوی تمیز الدین جیسے رہنماؤں کا پاکستان کی سیاسی تاریخ میں ذکر یا تو مکمل نظر انداز ہے یا کسی حوالے کی مجبوری سے آئے تو آئے ورنہ نہیں۔ کچھ ایسا ہی سلوک نواب بہادر یار جنگ، راجہ صاحب محمود آباد، چوہدری خلیق الزماں سمیت بہت سے زعما کے ساتھ ہوا۔
آزادی کی تحریک کے عروج کے زمانوں یعنی 30 کی دہائی میں ایک نوجوان چوہدری رحمت علی نے کیمبرج برطانیہ میں اپنے تئیں آزادی کی ایک نظریاتی اور عملی مہم شروع کی۔
چوہدری رحمت علی نے مجوزہ نئے ملک کا نام پاکستان تجویز کیا اور اس نام کو برطانوی پارلیمنٹ ، سرکردہ سیاسی شخصیات کے ساتھ خط وکتابت اور برطانوی اور ہندوستانی میڈیا میں پوری شدومد سے مشہور کیا، 1933 میں انھوں نے Now or Never کے عنوان سے ایک تاریخ ساز کتابچہ لکھا جس میں نہ صرف پاکستان کی تشکیل کی نظریاتی بنیادوں کو واضح کیا بلکہ جلدی یعنی urgency پر زور دیا جو اس کتابچے کے عنوان سے ظاہر ہے۔
اسی سال انھوں نے پاکستان نیشنل موومنٹ کے نام سے ایک تنظیم بھی تشکیل دی جس کے ذریعے وہ آخری عمر تک اپنے سیاسی نظریات کی آبیاری میں مصروف رہے۔ آل انڈیا مسلم لیگ نے ان کے تجویز کردہ نام کو 1940 میں پیش کردہ قرارداد لاہور تک اپنایا اور نہ ہی تسلیم کیا تھا لیکن قرارداد لاہور منظور ہونے پر سیخ پا ہندو پریس نے اگلے روز شہ سرخیوں میں اس قرارداد کو ’’پاکستان کا مطالبہ‘‘ قرار دیا۔
اس کے بعد آناً فاناً یہ نام آل انڈیا مسلم لیگ کی آزادی کی تحریک کا عنوان بن گیا۔ تقریروں ، تحریروں ، نظموں اور جلسوں میں ’’پاکستان کا مطلب کیا۔۔ لے کے رہیں گے پاکستان۔۔۔‘‘ جیسے ولولہ انگیز نعروں نے آزادی کے جوش و خروش کو ایک نئے جہاں سے ہم کنار کر دیا۔
تاہم نام’’ پاکستان‘‘ کے خالق اور تحریک پاکستان کے لیے نظریاتی اور سیاسی جدوجہد میں اپنے آپ کو وقف کرنے والے کو سرکاری اور عوامی سطح پر بہت سے دیگر اکابرین کی طرح نظر انداز کر دیا گیا۔
16 نومبر 1897 چوہدری رحمت علی کا یوم پیدایش ہے۔ وہ پاکستان کے ساتھ ساتھ بھارت میں مسلم آبادی پر مشتمل علاقوں میں آزاد مملکتوں کے بھی پرچارک تھے تاکہ آزادی کے بعد ہندو اکثریت کے ہاتھوں مسلمان اقلیت کے ساتھ نچلی ذاتوں کا سا سلوک نہ ہو۔
ان کے کچھ مطالبات زمینی حقائق سے ہم آہنگ نہ ہونے کے سبب قبولیت نہ پا سکے۔ وہ اپنے نظریات اور خیالات میں پختہ رائے رکھتے اور اس کا دلیرانہ اظہار بھی کرتے تھے۔ ان کے کئی خیالات اور بالخصوص پاکستان بننے کے بعد مہاجرین کی وسیع پیمانے پر قتل و غارت، بڑی تعداد میں انتقال ابادی کے تباہ کن اثرات، کرپشن اور نظریاتی سیاست ہر مفاداتی سیاست کے غلبے پر ان کی تنقید میں کہیں کہیں شدت در آئی اور اختلاف کی گنجائش بھی بنی۔
اس دوران انھوں نے پاکستان میں سکونت اختیار کرنے کی کوشش کی تو انھیں حکومتی ہراسگی اور کڑی خفیہ نگرانی کا سامنا کرنا پڑا ، ان کے پاسپورٹ جاری میں کرنے میں روڑے اٹکائے گئے۔ یہ حالات انکے خیالات میں تلخی کا باعث بنے۔
اس پس منظر میں انھوں نے The Greatest betrayal یعنی ’’عظیم بے وفائی‘‘ کے عنوان سے مضمون لکھا۔ جس شخص نے ملک کا نام تجویز کیا، عمر بھر اس کی آزادی کے لیے تن من دھن وار دیا، اسی ملک میں اسے پْرسکون سکونت کا ماحول نہ ملا تو وہ۔دل برداشتہ ہو کر برطانیہ واپس چلے گئے۔
تین فروری 1951 کو دیار غیر میں تنہائی، مایوسی اور تنگدستی کے عالم میں نمونیا کا شکار ہوئے، تدفین کی تفصیلات بھی تکلیف دہ ہیں۔ جسد خاکی کیمبرج کے قبرستان میں امانتاً دفنایا گیا لیکن کئی کوششوں کے باوجود ان کا جسد خاکی پاکستان لانے اور سرکاری اعزار کے ساتھ شایان شان انداز میں دفنانے کو خواب شرمندہ تعبیر نہ ہو سکا۔
چوہدری رحمت علی کے ساتھ مراسم اور مصاحبت کے حامل لوگوں میں سے بہت کم نے اپنی یادداشتیں قلم بند کیں۔ ان میں سے ایک سید جمیل واسطی مرحوم ہیں۔ چوہدری رحمت علی ان کے والد پروفیسر ایس ایم اے غنی کے اسلامیہ کالج میں شاگرد تھے۔
بعد ازاں بھی اپنے استاد سے تعلق رکھا، اکثر ان کی رہائش گاہ بھی جاتے رہے۔ سید جمیل واسطی والد کی طرح انگریزی کے لیکچرر تھے۔ برطانیہ ایم اے کی تعلیم کے داخلے کے سلسلے میں چوہدری رحمت علی نے ان کی معاونت بھی کی۔
سید جمیل واسطی کی اپنے قیام 1937 سے 1940 کے دوران ان سے ملاقاتیں رہیں۔ یوں انھیں اس عظیم شخص کو قریب سے دیکھنے اور صحبت کا موقع ملا۔ ان کے بڑے بھائی ڈاکٹر سید خلیل واسطی بھی 1936 سے 1940 تک تعلیم کے سلسلے میں برطانیہ قیام پزیر تھے۔
ڈاکٹر خلیل واسطی نے اپنے کچھ ہم خیال دوستوں کی معاونت سے 1976 میں ان کی یاد میں لاہور میں چوہدری رحمت علی میموریل ٹرسٹ کی بنیاد رکھی۔
اس ٹرسٹ کے تحت ایک اسپتال ، تین اسکول اور ایک دارالعلوم گزشتہ چار دہائیوں سے لاکھوں مریضوں کی خدمت اور ہزاروں طلبا و طالبات کو زیور تعلیم سے آراستہ کرکے چوہدری رحمت علی کا نام بھی زندہ رکھے ہے۔
سید جمیل واسطی نے 1981 میں چوہدری رحمت علی کے بارے میں اپنی یادداشتوں اور ان کے بارے میں شائع نادر حوالوں پر مبنی کتاب لکھی My Reminiscences of Choudhary Rahmat Ali۔ کے کے عزیز وہ واحد تاریخ دان ہیں جنھوں نے چوہدری رحمت علی پر اعلیٰ پائے کا علمی و تحقیقی کام کیا، ان کی شاندار سوانح لکھی اور ان کی تصانیف کو جمع کرکے ایک یادگار کتاب کی صورت میں محفوظ کردیا۔
ڈاکٹر کے کے عزیز کے بعد ہماری دانست میں سید جمیل واسطی کی یہ کتاب تحریک پاکستان کے اس نظر انداز ہیرو کی شخصیت کے نجی اور نظریاتی پہلوؤں کو ذاتی مشاہدات اور قابل اعتماد حوالوں کے ساتھ شاندار انداز میں پیش کرتی ہے۔
اس کتاب کا یہ انکشاف ہمارے لیے حیران کن تھا کہ لاء کالج کے زمانہ طالب علمی کے دوران انھیں شاعری کا بھی شوق ہوا۔ ان کے قریبی دوست اقبال اسد کے بقول چوہدری رحمت علی آزاد تخلص کرتے تھے۔ اقبال اسد نے 14 اگست 1963 کو روزنامہ امروز میں اپنے ایک مضمون میں ان کی شاعری کا یہ بند نقل کیا:
نہیں منازل ہستی کی ظلمتوں کا خطر
تری ضیاء سے روشن مرا حریم وجود
ہوگا آخر بارگاہ حق میں اک دن باریاب
میرا نعرہ انقلاب و انقلاب و انقلاب
اقبال اسد کے بقول انھوں نے بعد ازاں شاعری ترک کر دی۔ شاید ان کے کچھ اساتذہ نے انگریز حکومت کی جانب سے مقدمات کے جھنجھٹ میں الجھنے کی بجائے انھیں تعلیم پر فوکس رکھنے کا مشورہ دیا۔چوہدری رحمت علی کے 128ویں یوم پیدائش پر تحریک پاکستان کے دیگر زعما کے ساتھ چوہدری رحمت علی کو یاد رکھنا اس عظیم ملک اور اس کے خوبصورت نام کا شکرانہ ہے۔ اللہ تعالیٰ چوہدری رحمت علی کے درجات بلند فرمائے۔