پاکستانی حکمرانی کا ایک سنجیدہ مسئلہ یہ رہا ہے کہ اس میں زیادہ تر داخلی معاملات کو درست رکھنے کی حکمت عملی کم اور باہر کی دنیا پر انحصار زیادہ ہوتا ہے ۔ہمیں ایسے لگتا ہے کہ ہم باہر کی دنیا سے آنے والے امکانات اور مواقعوں کی بنیاد پر خود کو آگے بڑھانے کی خواہش رکھتے ہیں ۔اس کے مقابلے میں داخلی معاملات کی درستگی میں ہماری ترجیحات کمزور نظر آتی ہیں یا پھر ہم نے داخلی مسائل اور مشکلات پر اپنی آنکھیں بند رکھی ہوئی ہیں ۔یہ خوش فہمی موجودہ ریاستی یا حکومتی نظام میں ہی موجود نہیں بلکہ ماضی کے حکمران طبقات بھی اسی طرز کی جذباتیت کی سیاست اور حکمت عملی سے جڑے رہے ہیں ۔
عمومی طور پر سیاست کے میدان میں یہ منطق دی جاتی ہے کہ علاقائی یا عالمی حالات سے بہتر طور پر نمٹنے کے لیے ہمیں خود کو بطور ریاست داخلی سطح پر مضبوط کرنا ہوتا ہے ۔ ہم جب تک داخلی معاملات میں درستگی یا درست ترجیحات کا تعین کرکے اپنے تمام تر معاملات کو بہتر نہیں بنائیں گے خارجی مسائل سے نمٹنا ممکن نہیں ہوگا۔بدقسمتی سے ہم اپنے داخلی معاملات چاہے ان کا تعلق سیاسی ،جمہوری یا گورننس، معاشی ،سیکیورٹی اور ادارہ جاتی سطح کے مسائل سے ہے ہماری قومی ترجیحات کا حصہ نہیں بن سکے۔ایسے لگتا ہے کہ ہمارا طاقت پر مبنی سیاسی یا غیرسیاسی طبقہ اقتدار اور طاقت کی داخلی کشمکش میں اس حد تک الجھ گیا ہے کہ اس کی بھاری قیمت ریاست سے جڑے اہم مفادات ہی کو دینی پڑتی ہے۔
اس کا نتیجہ یہ بھی نکل رہا کہ اسلام آباد کی سیاسی کشمکش میں ریاست ،عوام اور شفاف حکمرانی کے مفادات کم اورشخصی حکمرانی کے مفادات کی اہمیت بڑھ گئی ہے ۔ہم نے ایک سیاسی روش یہ بھی اختیار کرلی ہے کہ ہم داخلی معاملات کی ناکامی پر اپنی ذمے داری قبول نہیں کرتے اور اس ناکامی کا بڑا ملبہ داخلی اور خارجی قوتوں پر ڈال کر خود کو بچانے کی کوشش کرتے ہیں۔یہ ہی حکمت عملی ہمیں مستقبل میں درست حکمت عملی اختیار کرنے سے دور کرتی ہے۔
ایسا نہیں کہ خارجی مسائل اور مشکلات نہیں ہیں ہمیں یقینی طور پران کا بھی علاج تلاش کرنا ہے مگر یہ عمل بھی درست حکمت عملی کا تقاضہ نہیں کہ ہم داخلی مسائل کو نظرانداز کریں یا ان کا ادراک نہ رکھنے کی عادت کو مستقل اپنی قومی پالیسی کا مزاج بنا لیں۔ حکومت کی سطح پر یہ سوچ رکھنا کہ ہم داخلی مسائل کو کم اہمیت دے کر آگے بڑھ سکتے ہیں یا ان کے علاج کو تلاش کیے بغیر ہم درست طور پر کچھ حاصل کرسکتے ہیںغلط سوچ کی عکاسی کرتا ہے۔
ہماری حکمرانی کی توجہ کا مرکز بھی امریکا،چین ،ترکی ،قطر،سعودی عرب اور دیگر ممالک ہیں اور ہم سمجھتے ہیں کہ ان کے پاس ہمارے مسائل کا حل موجود ہے یا ہم ان کی مدد اور تعاون کی بنیاد پر اپنی مشکلات کو کم کرسکتے ہیں ۔جب کہ اس کے برعکس ہماری داخلی سیاست،جمہوریت ،آئین و قانون کی حکمرانی ،معاشی ترقی ،گورننس کے نظام اور سیکیورٹی کے حالات پر ہماری سنجیدگی وہ نہیں جو بطور ریاست ہمیں درکار ہے ۔ہم اس پہلو کو مسلسل نظر انداز کررہے ہیں کہ ایک مضبوط ریاست میں عوامی مفادات کی بہت زیادہ اہمیت ہوتی ہے ۔ حکومت اور عوام کے درمیان بہتر تعلق ہی ایک دوسرے پر بھروسہ قائم کرتا ہے ۔ اگر یہ بہتر تعلق نہ ہو تو حکومت اور عوام کا رشتہ کمزور پڑ جاتا ہے۔
اگرچہ حکومت کا دعوی ہے کہ وہ سفارتی سطح پر بڑی کامیابیوں کو حاصل کر رہی ہے۔ مگر جب اس کے دعوؤں کا سیاسی تجزیہ کیا جاتا ہے کہ اس کامیابی میں عوامی مسائل کا حل اور ان کی ترجیحات ، ان کے نتائج کہاں ہیں تو اس کا جواب کہیں بھی شفافیت کے طور پر موجود نہیں ، جو لوگوں کے اعتماد کو کمزور کرتا ہے ۔ ہم کئی برسوں سے اپنی معیشت سے جڑے معاملات کو درست کرنے کی کوشش کررہے ہیں لیکن اس میں کسی بھی سطح پر کوئی اسٹرٹیجک تبدیلی دیکھنے کو نہیں مل رہی بلکہ ہمارا عالمی مالیاتی اداروں پر انحصار بڑھتا جارہا ہے۔
پہلے سے موجود اداروں کے مقابلے میں نئے اداروں کی تشکیل اور پرانے منصوبوں کی تکمیل کو نظر انداز کرنے کی پالیسی کے مقابلے میں نئے نئے منصوبوں کا آغاز ظاہر کرتا ہے کہ حکومتی سطح پر ترجیحات کے تعین کا بحران ہے ۔یعنی ہم یہ اندازہ کرنے میں ناکام ہورہے ہیں کہ ہمیں اس معاشی بحران کی موجودگی میں کیا کچھ کرنا ہے اور کن چیزوں پر فی الحال توجہ نہیں دینی ۔وفاقی اور صوبائی سطح پر کئی کئی ایسے منصوبے ہیں جو کئی دہائیوں سے مکمل ہی نہیں ہوسکے اور ان پر توجہ نہ دینے کی وجہ سے حکومتی وسائل کو بھی بڑے پیمانے پر ضایع کیا جارہا ہے مگر ان معاملات میں کوئی بھی کسی بھی سطح پرکسی کو بھی جوابدہ بنانے کے لیے تیار نہیںہے۔
حکمرانی کا بحران وفاقی اور صوبائی سطح پراصلاح کے تناظر میں سخت گیر اقدامات چاہتا ہے ۔لیکن حکومت کی ترجیحات میں گورننس کے نظام کو موثر بنانے کے لیے مضبوط اور خود مختار مقامی حکومتوں کا کوئی تصور نہیں ۔یہ ہی وجہ ہے کہ اضلاع،چھوٹے شہروں اور دیہاتوں کی سطح پر حکمرانی کا نظام کمزور ہے ۔
حکمران اسلام آباد یا صوبائی دارالحکومت میں بیٹھ کر پورے ملک کے مسائل کا حل تلاش کرتے ہیں جو یقینی طور پر ممکن نہیں ۔سوال یہ ہے کہ کیا وجہ ہے کہ ہمارا حکومتی نظام اصلاحات یا سخت گیر اقدامات اٹھانے کے لیے تیار نہیں جو ہماری ریاستی ترجیحات کا اہم حصہ ہونا چاہیے تھا۔یہ جو سیاسی سمجھوتے پر مبنی کھیل ہمیں نظر آتا ہے جہاں شخصی مفادات کی کے لیے مضبوط گٹھ جوڑ کیونکر نہیں ٹوٹ رہا ۔کیا ایسا تو نہیں کہ طاقت کے اہم افراد اور اداروں نے خود ریاست کے مفادات پر سیاسی سمجھوتہ کرلیا ہے ۔یہ سوال بھی سنجیدہ بحث کا تقاضہ کرتا ہے کہ عام آدمی یا کمزور سطح کے افراد کی ترقی کے نام پر جو عالمی امداد یا منصوبے آتے ہیں اس کا براہ راست اثر لوگوں کی سیاسی ،سماجی اور معاشی ترقی پر نہیں پڑرہا ۔
اب وقت آگیا ہے کہ ہم قومی سطح پر اپنے قومی مسائل اور بحران کا درست تجزیہ کرکے درست داخلی حکمت عملی کا راستہ اختیار کریں ۔ہمیں ان غیر معمولی حالات میں غیر معمولی اقدامات درکار ہیں ۔نظام کی اصلاح کے لیے ایک ایسا روڈ میپ درکار ہے جو عملا ہمیں اگلے دس برسوں میں کسی بہتر جگہ پر کھڑا کرسکے ۔لیکن اس کے لیے ہمیں داخلی سیاست کا استحکام درکار ہے اور سیاست یا جمہوریت کے نام پر سیاسی مہم جوئی کے کھیل کو بند کرکے آئین اور قانون کے دائرے کار میں رہتے ہوئے نظام کو آگے بڑھانا ہوگا۔ہمیں اپنے قومی سطح کے مسائل کے حل کے لیے محض طاقت کی حکمت عملی کے بجائے سیاسی حکمت عملی میں بھی بہتری پیدا کرنا ہوگی۔
اس وقت جو ہمیں بڑی سطح پر سیاسی تقسیم یا ٹکراؤ نظر آرہا ہے اس کا علاج بھی سیاسی حکمت عملیوں کے ساتھ ہی تلاش کرنا ہوگا۔لیکن اس کے برعکس ہم داخلی سطح پر ایک دوسرے کے ساتھ جہاں ٹکراؤ کی پالیسی کے ساتھ کھڑے ہیں وہیں اپنے سیاسی مخالفین کو طاقت کے زور پر ختم کرنے کی پالیسی نے بھی ہمیں داخلی سطح پرتنہا کردیا ہے اور اس کا علاج تلاش کرنا ہوگا۔