متاثرین میں شامل بہاری کمیونٹی کے محمد علاؤالدین نے اپنی روداد سناتے ہوئے بتایا کہ بھارتی سرپرستی میں سرگرم مکتی باہنی کے مسلح گروہوں نے اس دور میں عام شہریوں، خصوصاً بہاری آبادی، کو نشانہ بنایا اور ان پر ناقابلِ بیان مظالم کیے۔
ان کے مطابق چٹاگانگ میں ایسے حالات تھے کہ ہم نے 45 ڈرمز میں سربریدہ لاشیں اکٹھی کیں، اور بے شمار لاشیں سڑکوں سے اٹھا کر خود دفن کیں۔ انہوں نے بتایا کہ مکتی باہنی کے حملوں کے باوجود انہوں نے اپنی کمیونٹی کی حفاظت کی بھرپور کوشش کی۔
علاؤالدین کے مطابق پاکستانی فوج جب ان کی مدد کے لیے پہنچی تو مکتی باہنی کے مسلح افراد نے انہیں روکنے کی کوشش کی، تاہم بعدازاں جنرل ٹکا خان کی آمد کے بعد علاقے میں کچھ بہتری آئی۔
انہوں نے بتایا جنرل ٹکا خان نے کہا کہ آپ سب نے ہمارا بہت ساتھ دیا، پھر ہمیں فوج میں بھرتی کیا گیا اور تین ماہ کی ٹریننگ دی گئی۔
علاؤالدین نے دعویٰ کیا کہ اُس وقت مکتی باہنی، شانتی باہنی اور لال باہنی جیسے گروہوں نے پورے خطے میں دہشت کا جال بچھا رکھا تھا جبکہ دوسری جانب بھارتی افواج کی کارروائیاں بھی جاری تھیں۔ تاہم ان کے مطابق بہاری کمیونٹی نے تمام تر مشکلات کے باوجود پاکستان سے اپنی وفاداری ترک نہیں کی۔
انہوں نے بتایا کہ آج بھی لگ بھگ 6 سے 7 لاکھ بہاری بنگلہ دیش میں پھنسے ہوئے ہیں جو اب بھی پاکستان سے محبت اور وابستگی رکھتے ہیں۔ علاؤالدین کے مطابق ہندوستانی پروپیگنڈا حقائق کے برعکس ہے اور ان داستانوں سے اصل صورتحال واضح ہوتی ہے۔
سن 1971 کے واقعات سے متاثرہ افراد کی یہ تازہ گواہیاں اس دور کی خونریز تاریخ پر نئی روشنی ڈالتی ہیں اور اس بات کی نشاندہی کرتی ہیں کہ اس عرصے کے انسانی المیے آج بھی یادوں اور زخموں کی صورت زندہ ہیں۔