امریکی بائیکاٹ کے باوجود جی-20 سمٹ کا اعلامیہ منظور

جی۔ 20 سربراہی اجلاس کے دوران جنوبی افریقہ اور امریکا کے درمیان کشیدگی اس وقت کھل کر سامنے آگئی جب عالمی رہنماؤں نے ماحولیاتی تبدیلی اور دیگر مسائل پر مشترکہ اعلامیہ منظور کر لیا، جس کی امریکا نے مخالفت کی تھی۔ امریکی بائیکاٹ کے باوجود ہونے والی اس منظوری پر وائٹ ہاؤس نے الزام لگایا کہ جنوبی افریقہ نے جی 20 کی صدارت کو سیاسی مقصد کے لیے استعمال کیا۔

رائٹرز کے مطابق جنوبی افریقہ کے صدر سیرل راما فوسا کے ترجمان نے کہا کہ اعلامیہ ایک سال کی مشاورت کے بعد تیار ہوا ہے اور اسے دوبارہ نہیں کھولا جائے گا۔ انہوں نے بتایا کہ امریکا نے شروع سے اس عمل میں حصہ نہیں لیا۔ وائٹ ہاؤس نے یہ بھی شکایت کی کہ راما فوسا صدارت کی منتقلی میں تعاون نہیں کر رہے۔

جنوبی افریقا میں جی 20 سمٹ

اعلامیے کی منظوری سے پہلے ارجنٹینا نے مذاکرات چھوڑ دیے۔ اس کے وزیر خارجہ نے کہا کہ مشرق وسطیٰ تنازع کو جس طرح بیان کیا گیا ہے وہ ان کے لیے قابل قبول نہیں، تاہم انہوں نے تعاون کی اہمیت کو تسلیم کیا۔




اعلامیے میں ماحولیاتی تبدیلی کو بڑا خطرہ قرار دیا گیا، قابل تجدید توانائی کی کوششوں کو سراہا گیا اور غریب ممالک کے بھاری قرضوں کا ذکر کیا گیا۔ یہ نکات وہ ہیں جن پر امریکا پہلے بھی اعتراض کرتا رہا ہے۔

جی 20 کی ناکامی پر مودی حکومت کو بھارت کے اندر سے بھی طعنے ملنے لگے

اجلاس کے آغاز میں صدر راما فوسا نے کہا کہ پہلی افریقی جی 20 صدارت کی اہمیت کم نہیں ہونی چاہیے۔ دوسری جانب امریکا نے اجلاس میں شرکت سے انکار کرتے ہوئے جنوبی افریقہ پر بے بنیاد الزامات لگائے، جنہیں پریٹوریا نے مسترد کر دیا۔



AAJ News Whatsapp


اجلاس میں عالمی طاقتوں کے درمیان اختلافات بھی دکھائی دیے۔ یورپی یونین نے اہم معدنیات کو سیاسی دباؤ کے طور پر استعمال کرنے پر تشویش ظاہر کی، جبکہ چین کے وزیراعظم لی چیانگ نے جی 20 ممالک پر زور دیا کہ اختلافات کے باوجود اتحاد کی راہ اختیار کریں۔

اختتام پر جنوبی افریقہ نے امریکا کی یہ درخواست بھی رد کر دی کہ صدارت کی منتقلی کے لیے صرف نچلے درجے کا سفارتکار بھیجا جائے۔ جنوبی افریقہ نے کہا کہ یہ پروٹوکول کے خلاف ہے اور منتقلی برابر کے عہدے دار کے ذریعے ہی ہوگی۔

Similar Posts