خرد کا نام جنوں رکھ دیا جنوں کا خرد
جو چاہے آپ کا حسن کرشمہ ساز کرے
اب ایسا استثنیٰ یا استثنا تو ہمارے اس خوش نصیب، خوش بخت اورخوشاخوش ملک میں ہرکسی کو پہلے ہی اتنا حاصل ہے کہ یوں لگتا ہے جیسے اس میں استثنا ہی استثنا ہو اورباقی کچھ نہ ہوجسے ہر کوئی استثنا سے مالامال ہو ، نہال ہو اورصاحب جلال وجمال ہو،بے مثال ہو اورکمالوں کا کمال ہو اور مائی کالال ہو۔
بہت بڑے بڑے تاجر اورصنعت کار ہوں، چھوٹے چھوٹے دکاندار ہوں، ریڑھی بردار، چھابڑی بردار ہوں ، مطلب یہ کہ ان سب کو سب کچھ سے استثنا حاصل ہے،ناپ تول سے، نرخوں سے اورحساب کتاب سے ، چاہے افسر ہو، بابو ہو یا چپڑاسی ہو، لیڈر ہو، سماجی کارکن ہو یا گورکن ہو، ممبریونین کونسل ہو، ایم پی اے ،ایم این اے ہو ، سینٹیر ہو ، ڈاکٹر ہو، کمپونڈر ہو یا نرس ہو، قانون نافذ کرنے والا ہو، تفتیش والا ہو یا اوپر اوپر اوراوپر سب سے نیچے تک کوئی بھی ہو، استثنا سے بھرا ہو،چاہے کچھ بھی نہ ہو وہ بھی استثنا بردار ہے یعنی اسے بھی مکمل چھوٹ حاصل ہے اور اس کی کوئی گرفت نہیں۔
ایک لطیفے یلکہ حقیقے نے دم ہلانا شروع کردی ہے،کئی سال پہلے پشاورمیں ایک دبلاپتلا سا کالا کلوٹا سا آدمی ہمیں کئی مقامات پر ملا کرتا تھا،کچھ اتفاق ایسا ہوجاتا کہ وہ ہمیں کہیں نہ کہیں مل جاتا اور اپنا مخصوص طریقہ یا استثنا دکھاتا رہتا تھا ،یہ استثنا ایک سرینج باکس کی شکل میں تھا اورجہاں بھی اسے اپنا استثنا دکھانا ہوتا جیب سے وہ باکس نکال کر اور کھول کر دکھاتا، اس باکس یا ڈبے میں روئی کے اوپر ایک ’’سرینج‘‘رکھی ہوتی تھی ، اس زمانے میں ابھی یہ ڈسپوز ایبل سرینج نہیں ہوتے تھے ، شیشے کے سرینج ہوتے تھے اوراس کے ساتھ کئی نیڈل ہوتے تھے جنھیں ابال ابال کر استعمال کیاجاتا ، سرینج بکس نکال کر وہ سامنے والے کو دکھاتا۔ یہ دیکھ، میں ڈاکٹر لطیف دا کمپونڈر آں۔ایک دفعہ ہم نے اسے آٹے کی دکان میں دیکھا، دکاندار کو سرینج دکھا کر ’’استثنا‘‘ حاصل کررہا تھا ، دوسری بار ہوٹل میں… وہی … دیکھ میں ڈاکٹر لطیف داکمپونڈر آں۔ تیسری بار ایک بس میں کلینر کو دکھا کر ٹکٹ سے استثنا کاطلب گارتھا، کئی جگہ پولیس والوں سے بھی…کمپونڈر کااستثنا حاصل کرتے دیکھا۔ڈاکٹرلطیف کون تھا یہ ہمیں کبھی معلوم نہیں ہوا ، باربار مل جاتاتھا، ان دنوں میں اتنی بھیڑ بھاڑ نہیں ہوتی تھی اس لیے کہیں سے بھی وہ دکھائی دے دیتا تھا ۔
یہی سلسلہ آج کل ہرجگہ ہے لیکن سرینج باکس اورڈاکٹرلطیف بیچ میں سے نکل چکے ہیں اورکمپونڈر کی جگہ اوربہت سارے ’’استثنائی‘‘ ہرجگہ موجود ہیں اور بھرپور استثنا حاصل کررہے ہیں ۔آپ اخباروں میں روزانہ گھپلوں، اسکینڈلوں،میگا اسکینڈلوں کی خبریں تو پڑھتے ہوں گے ۔اور ان سے متعلق سرکاری محکموں کی کامیابیوں کے بارے میں بھی پڑھتے ہوں گے لیکن کبھی ایسی بھی کوئی چیز نہیں پڑھیں گے کہ ان اسکینڈل مہا اسکینڈلوں اورگھپلوں میں کسی کو سزا بھی ہوئی ہو کیوں کہ بیچ میں ’’استثنا‘‘ حائل ہوجاتا ہے اورجب اسی استثنا کے اسٹامپ پیپر پر قائد کی تصویر بھی ہو ،مطلب کہ استثنا کا یہ حال ہے کہ ہرطرف اس کا ایک سیلاب آیا ہوا ہے ،موسلادھار بارش ہو رہی ہے ، آندھیاں چل رہی ہیں تو پھر ایسے میں استثنا کے یہ چرچے کہ دانادانشور اس پرچے کے پرچے بھر رہے ہیں ، یہ یقیناً وہ استثنا نہیں جو ہم سمجھ رہے ہیں بلکہ یہ کوئی اوراستثنا ہے اورہماری سمجھ دانی میں نہیں آرہا ہے ، شاید یہ ( اس تث نا) نہ ہو بلکہ اس تسی نا ہو یا ایس ٹھیس نا ہو بلکہ (ت) کی جگہ (ص) سے بھی ہوسکتا ہے یا اس (ی) کی جگہ (ع) سے بھی ہوسکتا ہے یا(ز) سے بھی ۔ اوراستثنا کی جگہ استثنی بھی۔ مطلب یہ بھی ہوسکتا ہے اورکچھ نہیں بھی ہوسکتا ہے۔
اب ہمارے حضرت ڈاکٹر پروفیسر بیرسٹر علامہ بھی یہاں نہیں ہیں وہ کینیڈا کو مسلمان بنانے میں مصروف ہیں اورباباجی ڈیمووالی سرکار بھی کہیں خلوت نشین یا حجلہ نشین ہوچکے ہیں اس لیے ہم
کس سے پوچھیں کہ وصل میں کیا ہے
ہجر میں کیا نہیں کہ تم سے کہیں
یا اورکوئی دانشور بھی ہماری مدد کرے تو اچھا ہوگا لیکن لگتا ہے وہ بھی عالمی معاملات اورعالمی لیڈروں کو مشورے دینے میں بزی ہیں ، اس لیے ہم حیران وپریشان کھڑے ہیں کہ یہ استثنا،استثنیٰ یا اس تس نا کیا ہے ، کیا وہی استثنا ہے جو اس ملک میں ہرکسی کو الغاروں تلغاروں حاصل ہے یا یہ کوئی اوربہت ہی خاص الخاص اورترقی دادہ قسم کی ’’چیز‘‘ ہے ۔
کوئی سمجھائے یہ کیارنگ ہے میخانے کا
آنکھ ساقی کی اٹھے نام ہو پیمانے کا