مباحثہ اس قرارداد پر منعقد ہوا کہ “بھارت کی پاکستان پالیسی دراصل عوامی جذبات بھڑکانے کی حکمتِ عملی ہے جسے سیکیورٹی پالیسی کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے۔”
بھارت نے ابتدائی طور پر اعلیٰ سطح کے مقررین جیسے جنرل نروا نے، ڈاکٹر سبرامنیم سوامی اور سچن پائلٹ کو مباحثے کے لیے نامزد کیا تھا، تاہم انہوں نے شرکت سے انکار کر دیا جس کے بعد بھارت نے جے سائی دیپک، پنڈت ستیش شرما اور دیورچن بنرجی پر مشتمل ایک نسبتاً کم درجے کا پینل میدان میں اتارا۔
اس کے برعکس پاکستان نے بڑی فراخ دلی سے اپنے اعلیٰ سطحی نمائندوں کو شامل نہ کرنے کا فیصلہ کرتے ہوئے آکسفورڈ میں زیرِ تعلیم پاکستانی طلبہ—موسیٰ ہراج، اسرار خان کاکڑ اور احمد نواز خان—کو پورے اعتماد سے نمائندگی دی۔
مباحثے کے دوران پاکستانی طلبہ نے بھارتی وفد کے بیانیے کو منطق، قانون اور اعدادوشمار کی بنیاد پر مؤثر دلائل کے ساتھ چیلنج کیا۔ ووٹنگ میں پاکستانی موقف کو دو تہائی اکثریت سے کامیابی حاصل ہوئی، حالانکہ آکسفورڈ یونین میں بھارتی ارکان کی تعداد زیادہ تھی۔
ماہرین کے مطابق آکسفورڈ جیسے عالمی فورم پر پاکستانی نوجوانوں کی یہ کامیابی اس بات کا ثبوت ہے کہ دلیل اور حقائق کی بنیاد پر پاکستان کا بیانیہ زیادہ مضبوط اور قابلِ اعتماد ہے، جبکہ بھارتی جانب سے اعلیٰ سطحی مقررین کے انکار اور دوسرے درجے کے پینل کی شکست بھارت کے فکری مؤقف کی کمزوری کو ظاہر کرتی ہے۔