سب سے بلند چیخ…

اسپتال … بلکہ کہیں بھی جانا تو ان دنوں راولپنڈی میں ویسے ہی لاینحل مسئلہ بنا ہوا ہے اور جن سڑکوں کی تعمیر کے لیے راستے مسدود کیے گئے ہیں وہ شہ رگ جیسی ہیں۔

ان کی تعمیر نو سے بلا شبہ شہر میں ٹریفک کی روانی کو بحال کرنے میں نمایاں مدد ملے گی مگر کیا ہی اچھا ہوتا کہ ان سڑکوں کی کھدائی کا عمل شروع کرنے سے پہلے ان کے متبادل راستوں کو کچھ بہتر کر دیا جاتا اور ایک طرف سے عارضی سی سڑک بنا دی جاتی تا کہ کچھ سہولت ہو جاتی۔ اپنے ڈاکٹر سے گیارہ بجے کا وقت لو اور گھر سے اسپتالوں کا رش چھٹنے کے بعد سوا نو بجے بھی نکلو تو بیس منٹ کا راستہ ایک گھنٹہ اور بیس منٹ میں بھی طے نہیں ہوتا اور نتیجہ وہی کہ ڈاکٹر اپنے اگلے مریض شروع کر چکے ہوتے ہیں اور ہمیں طویل انتظار کرنا پڑ جاتا ہے۔ ڈاکٹر ہمارا مسئلہ نہیں سمجھتے اور ہم ان کا نہیں … ہر بار جاؤ تو یہی بحث ہوتی ہے۔

سب سے زیادہ رش اس مقام پر ہوتا ہے جہاں سے ایوب پارک کے سامنے سے ایک راستہ 502ورکشاپ کے ساتھ سے گزرتا ہے، اسی چوک میں ایک اسکول بھی ہے اور یہی جگہ ہے جہاں پر آپ کوایک کلو میٹرکا فاصلہ طے کرنے میں صدیوں جیسا وقت لگ جاتا ہے۔ اشارہ چند سیکنڈ کے لیے کھلتا ہے اور اس دوران بھی وہ بائیک والے حضرات جو ہمیشہ گاڑیوں کے بیچوں بیچ میںسے گھس گھسا کر، سب سے آگے ٹریفک کے اشارے کے بالکل پاس کھڑے ہوجاتے ہیں اور ان کا رش چھٹتا ہے تو بمشکل چار گاڑیاں ہی نکل پاتی ہیں۔

جن لوگوں کو یہ راستہ ہرروز طے کرنا پڑتا ہے، ان کا سوچ کر دکھ ہوتا ہے۔ اس روز بھی ڈاکٹر کی اپائنٹمنٹ سے لگ بھگ لیٹ ہی ہو رہے تھے اور کوشش تھی کہ کہیں دائیں بائیں سے راستہ ملے مگر ہم سے آگے دو ایمبولینس تھیں جو کہ سائرن بجا رہی تھیں۔ انھیں راستہ نہیں مل رہاتھا، وہ چیخ چیخ کر تھک جاتی ہیں مگر ان حالات میں انھیں کوئی راستہ دے بھی تو کیسے؟

کہاں سے دائیں بائیں یا آگے مڑیں کہ ایمبولینس نکل سکے۔ اس میں ہم جیسے عام بیمار لوگ نہیں ہوتے بلکہ وہ لوگ ہوتے ہیں جو کہ موت اور حیات کی کشمکش میں ہوتے ہیں۔ ایمبولینس میں ابتدائی طبی امداد کی ایک حد ہے، ا س کے بعد مریض کا اسپتال اور متعلقہ ڈاکٹر تک پہنچنا بہت ضروری ہوتا ہے۔

اس طرح کے شدید پھنسے ہوئے حالات میں اگر آپ کہیں کہ ائیر ایمبولینس آجائے تو وہ بھی نہیں آسکتی کیونکہ اسے لینڈ ہونے اور مریض کو امداد دینے کے لیے بھی مخصوص حالات اور مقامات چاہیے ہوتے ہیں۔ دو رویہ سڑک جو اس وقت چار سے پانچ لین کی گاڑیوں سے جام ہو چکی ہوتی ہے، اس میں سے کوئی ایمبولینس کیسے نکلے، کوئی اس کو جگہ کیسے دے۔

سچ تویہ ہے کہ ایمبولینس کا سائرن انسانی زندگی کی سب سے بلند چیخ ہے، وہ چیخ جو ہم سنتے ہیں مگربسا اوقات سمجھنے سے انکار کر دیتے ہیں۔ یہ سائرن وہ ہاتھ ہے جو اس وقت ہر گاڑی کی کھڑکی ہر دستک دے کر، ہاتھ اٹھا کر بھیک میں صرف راستہ مانگ رہا ہوتا ہے ، یہ کہتے ہوئے کہ تھوڑا سا راستہ دے دو بھائی، شاید تمہاری وجہ سے ایک جان بچ جائے ۔ لیکن ہمیں اپنی مصروفیت کو ہی فوقیت دینا ہوتی ہے ۔ یہ سائرن صرف ایک سائرن نہیں، ایک پکار نہیں، ایک آواز نہیں بلکہ یہ کئی کہانیوں کا مجموعہ ہوتی ہے۔

کسی گھر کا واحد کمانے والا… گھر گرہستی کو چلانے والی جس کے کندھوں پر ابھی بھی ذمے داریوں کے کئی بوجھ ہیں۔ کسی اندھی گولی کا نشانہ بن جانے والا، کسی ظالم قاتل کے وار کا شکار ہوجانے والا، کسی جھگڑے کو مٹانے کی کوشش میں خود مٹ جانے والا، کوئی غریب جو کسی گاڑی کی ٹکر سے زخمی ہو کر لاوارث سڑک پرپڑا ہماری بے حسی کو دیکھتا رہا، کوئی بیٹی جو ماں بننے کے مراحل میں اور وقت کا پنڈولم مسلسل جھول رہا ہے، کسی پتنگ کی ظالم ڈور سے گلا کٹ جانے سے گرنے والا، ہارٹ اٹیک ہو جانے کے باعث طبی امداد کا منتظر۔ غرض جو اس وقت ایمبولینس کے اسٹریچر پر پڑا ہے، وہ ہر گز تفریح کے لیے گھر سے نہیں نکلا ہے، وہ ہماری ہمدردی اور انسانیت کا امتحان ہے۔

ایمبولنس کو راستہ دینا سڑک پر موجود ہر فرد کی ذمے داری ہے خواہ وہ پیدل چل رہا ہو، موٹر سائیکل پر ہو ، کار، وین، بس یا کسی بھی اور سواری پر ہو۔ اسے علم ہونا چاہیے کہ اس کا ایک عقل مندانہ اقدام ایک انسان کی جان بچانے کا باعث بن سکتا ہے ۔

’’بلا شبہ جس نے ایک انسان کو بچایا، اس نے گویا ساری انسانیت کو بچایا۔‘‘ اگر آپ کو لگے کہ آپ کے عقب میں ایمبولنس ہے اور اسے راستہ نہیں مل رہا ، آپ نے اپنی گاڑ ی اس کے راستے سے ہٹانا ہے، اس کے لیے آپ اگلی گاڑی والے کو ہارن بھی دے سکتے ہیں، ٹریفک سگنل کو توڑ سکتے ہیں، یعنی لال بتی پر بھی گاڑی نکال سکتے ہیں۔ اس کے لیے آپ مسلسل ہارن بجاتے ہوئے لال بتی پر بھی نکل جائیں تا کہ اطراف والی ٹریفک، جن کی بتی سبز ہے، انھیں سمجھ آ جائے کہ آپ سگنل کیوں توڑ رہے ہیں۔

جہاں جہاں ان دنوں ٹریفک جام ہیں ، وہیں پر ٹریفک کو بہتر انداز سے منظم کرنے والے غیر موجود۔ اگر وہ ہوں تو ٹریفک کے بہاؤ کو منظم بنانے میں بہت مدد مل سکتی ہے۔

کم از کم وہ جگہ جہاں پر  bottle neck  بن جاتی ہے اور وہاں سے اسپتال صرف آدھے کلو میٹر کے فاصلے پر ہو، وہاں پر تو ایمبولینس کی آمد و رفت کسی بھی وقت متوقع ہے۔ عام آدمی کو اگر شعور نہ بھی ہو تو ٹریفک کو منظم کرنے والا لمحوں میں اس طرف کی ٹریفک کو کھول سکتا ہے جہاں ایمبولینس پھنسی ہوئی ہوتی ہے۔ اس لیے اسپتالوں کے قریب اشاروںوالے چوک پر سگنل کی بتیوں کے علاوہ ٹریفک کو منظم کرنے والوں کا ہونا بھی ضروری ہے اور اگر ممکن ہو تو ایک لین ہر وقت کھلی رکھیں تا کہ ایمر جنسی کے لیے استعمال ہو سکے۔

ہم ایک انتہائی بے حس اور بے شعور قوم ہیں جنھیں اپنے حقوق کا بھی علم نہیں تو انھیں یہ بتانا کہ ایمبولینس کے بہت سے حقوق ہیں۔ کسی کو کوئی فرق تو نہیں پڑنے والا مگر پھر بھی اپنی ذمے داری ادا کرنا تو ہمارا کام ہے۔ قانون تو کہتا ہے کہ ایمبولینس کو راستہ نہ دینا جرم ہے، اس پر سزا بھی ہے اور جرمانہ بھی، مگر صد حیف!! میںنے آج تک کسی کو اس پر سزا یا جرمانہ ہوتے ہوئے سنا نہیں، کیا آپ نے سنا؟ ہم نے اپنی ایسی عادات کو جرم میں بدل دیا ہے اور ہمیں ان جرائم کا احساس بھی نہیں ہوتا۔ ایسے جرم کو تو ہم مذاق سمجھتے ہیں، ہما را مذاق جو کسی کی جان لے لیتا ہے۔ ہمیں اس وقت تک اس جرم کا احساس نہیں ہوتا جب تک ہم خود یا ہمارا کوئی پیارا ایسی ہی بے بسی کے ساتھ اس ایمبولنس کے اسٹریچر پر نہ لیٹا ہوا ہو۔ اس وقت سے پہلے خود احساس کریں اور اچھے انسان اور ذمے دار شہری ہونے کا ثبوت دیں۔

Similar Posts