ماسکو اور واشنگٹن کے درمیان منگل کو ہونے والی بات چیت میں یوکرین کے ممکنہ امن معاہدے کے سلسلے میں کوئی نمایاں پیش رفت سامنے نہ آسکی، تاہم کریملن کے معاون یوری اوشاکوف نے کہا کہ جنگ بندی مذاکرات میں بعض علاقے رکاوٹ بن رہے ہیں۔
برطانوی خبر رساں ادارے رائٹرز کے مطابق کریملن کے سینئر مشیر یوری اوشاکوف کا اشارہ روس کے اُس دعوے کی جانب تھا جن کے مطابق ماسکو پورے مشرقی یوکرین کے خطے ڈونیٹسک پر حقِ ملکیت رکھتا ہے، حالانکہ اس کا کچھ حصہ اب بھی یوکرین کے کنٹرول میں ہے۔
رائٹرز کے مطابق یہ دعویٰ تقریباً چار سال قبل صدر ولادی میر پیوٹن کے جانب سے یوکرین میں روسی فوج داخل کرنے اور اس سے بھی قبل 2014 میں ڈونیٹسک میں روسی حمایت یافتہ بغاوت کے بعد سے برقرار ہے۔
دنیا کے تقریباً تمام ممالک ڈونیٹسک کو یوکرین کا حصہ تسلیم کرتے ہیں، لیکن ماسکو نے 2022 میں ایسے ریفرنڈمز کے بعد اس خطے سمیت یوکرین کے مزید تین مشرقی علاقوں کو ضم کرنے کا اعلان کیا تھا، جنہیں کیف اور مغربی ممالک نے جعلی قرار دیا تھا۔
امریکی وزیرِ خارجہ مارکو روبیو نے فوکس نیوز کو بتایا کہ جنگ اب 20 فیصد یا تقریباً پانچ ہزار مربع کلومیٹر (انیس سو مربع میل) کے اُس حصے پر مرکوز ہے جس پر روس قبضہ کرنا چاہتا ہے مگر اسے حاصل نہیں کر سکا۔
ڈونیٹسک امن مذاکرات میں اہم کیوں؟
پیوٹن نے 2022 میں یوکرین پر حملے کے وقت دعویٰ کیا تھا کہ مقصد اُن لوگوں کی حفاظت ہے جو آٹھ برس سے دھونس اور نسل کشی کا شکار تھے۔ جس پر یوکرین اور اس کے اتحادیوں نے اس بیان کو نوآبادیاتی طرز کی جنگ کا بہانہ قرار دیا تھا۔
یہ دعویٰ 2014 میں اُس کشمکش کے تناظر میں تھا جب یوکرین نے ڈونیٹسک اور لوہانسک میں روسی حمایت یافتہ علیحدگی پسندوں کے خلاف کارروائیاں کی تھیں۔ فریقین ایک دوسرے پر شہری علاقوں پر گولہ باری کا الزام لگاتے رہے۔
روس نے علاقے میں روسی بولنے والوں کی بڑی آبادی کا حوالہ دیتے ہوئے 2022 میں مداخلت کو اخلاقی ذمہ داری قرار دیا تھا، جبکہ کیف کا مؤقف تھا کہ ریاستی سالمیت کے دفاع کے لیے 2014 میں فوجی کارروائی ناگزیر تھی۔
اقوامِ متحدہ کے مطابق 2014 سے 2022 تک دونوں جانب مجموعی طور پر 3 ہزار 106 شہری مارے گئے تھے جبکہ تقریباً 9 ہزار زخمی ہوئے تھے۔
ڈونیٹسک کے دیگر ماندہ علاقے میں سلوویانسک اور کراماتورسک جیسے شہر شامل ہیں جنہیں 2014 سے یوکرینی فوجی مراکز سمجھا جاتا ہے۔ یہ شہر یوکرین کے دفاع کے لیے کلیدی ہیں کیونکہ ڈونیٹسک کے مغرب میں موجود کھلے اور ہموار میدان روسی پیش قدمی کو آسان بنا سکتے ہیں۔
یہ علاقے خندقوں، بارودی سرنگوں، اینٹی ٹینک رکاوٹوں اور بنکروں سمیت مضبوط دفاعی لائن کا حصہ ہیں۔
یوکرینی صدر وولودیمیر زیلنسکی نے کہا تھا کہ ڈونیٹسک کا مزید حصہ چھوڑنا غیر قانونی ہوگا اور یہ مستقبل میں روس کے لیے یوکرین کے اندر مزید پیش قدمی کی بنیاد بن جائے گا۔
کیف کو خدشہ ہے کہ اگر اس نے ڈونیٹسک کا بقیہ حصہ دے دیا تو روس دوبارہ عسکری قوت جمع کرکے مغرب کی طرف دھاوا بول سکتا ہے۔
دونوں ممالک کے لیے ڈونیٹسک جذباتی اور سیاسی اہمیت رکھتا ہے۔ باخموت سمیت خطے میں شدید لڑائی کے باعث دونوں جانب بھاری جانی نقصان ہوا تھا۔ روس نے یہاں ہزاروں قیدی بھرتی کیے تھے۔
یوکرین کا کہنا ہے کہ وہ وہ علاقہ روس کو نہیں دے سکتا جسے وہ جنگ کے ذریعے حاصل کرنے میں ناکام رہا تھا، جبکہ زیلنسکی کا مؤقف ہے کہ روس کو جنگ شروع کرنے کا انعام نہیں ملنا چاہیے۔
امریکی تھنک ٹینک انسٹیٹیوٹ فار دی اسٹڈی آف وار نے اکتوبر میں کہا تھا کہ روس کی پیش قدمی کی رفتار ایسی نہیں کہ وہ جلد پورے ڈونیٹسک پر قبضہ کر لے، البتہ اگر یہی رفتار برقرار رہی تو 2027 کے اگست تک یہ ممکن ہو سکتا ہے۔
دوسری جانب روسی عسکری قیادت زیادہ پُراعتماد دکھائی دیتی ہے۔ روسی جنرل اسٹاف کے سربراہ ویلیری گیراسیموف نے پیوٹن کو بتایا کہ روسی افواج پوری فرنٹ لائن پر آگے بڑھ رہی ہیں اور ڈونباس پر مکمل کنٹرول حاصل کرنے کی جانب گامزن ہیں۔
یوکرینی شہر ڈونیٹسک میں بندرگاہیں، ریلوے اور بھاری صنعتیں موجود ہیں۔ یہ خطہ کبھی یوکرین کو کوئلے، اسٹیل، کاسٹ آئرن اور کوک کی نصف سے زیادہ پیداوار فراہم کرتا تھا، حالانکہ جنگ نے بہت سی کانوں اور فیکٹریوں کو تباہ کر دیا۔ یہاں نایاب معدنیات، ٹائٹینیئم اور زرکونیم بھی موجود ہیں۔
اس کے علاوہ ڈونیٹسک جہاں کم از کم ڈھائی لاکھ یوکرینی شہری مقیم ہیں، بغیر لڑے اس شہر کو چھوڑ دینا یوکرینی عوام کی نظر میں غداری سمجھا جائے گا۔ حالیہ سروے کے مطابق یوکرینی شہریوں کی معمولی اکثریت اب بھی علاقائی رعایتوں کی مخالفت کرتی ہے۔
یوکرینی عہدیدار بشمول زیلنسکی کسی بھی امن معاہدے کے تحت زیرِ کنٹرول علاقہ چھوڑنے کے امکان کو مسترد کر چکے ہیں۔
زیلنسکی کے مطابق وہ ریاستی زمین کسی جائیداد کی طرح تبادلے میں نہیں دے سکتے اور اس کے لیے ان کے پاس کوئی عوامی مینڈیٹ بھی نہیں ہے۔
یوکرینی آئین کے تحت علاقائی تبدیلیاں صرف ریفرنڈم کے ذریعے ممکن ہیں، جس کے لیے ملک کے دو تہائی علاقوں سے کم از کم 30 لاکھ اہل ووٹرز کے دستخط درکار ہیں۔
