پاکستان اور کرغزستان کے درمیان وفود کی سطح پر ہونے والی حالیہ ملاقات بلاشبہ خطے میں بدلتے ہوئے جغرافیائی و معاشی حالات کے تناظر میں نہایت اہمیت کی حامل ہے۔
وزیراعظم شہباز شریف اور کرغزستان کے صدر صادر ژاپاروف کے درمیان ہونے والی یہ گفتگو نہ صرف دوطرفہ تعلقات کے ایک نئے دور کا آغاز کرتی ہے بلکہ وسطی اور جنوبی ایشیا کے مابین تعاون کی نئی راہیں بھی کھولتی ہے۔ اس ملاقات سے یہ بات ایک بار پھر ثابت ہوئی ہے کہ پاکستان علاقائی ہم آہنگی، اقتصادی اشتراک اور توانائی کے استحکام کے لیے اپنی خارجہ پالیسی میں واضح اور سنجیدہ رخ رکھتا ہے۔
یہ امر بھی قابلِ ستائش ہے کہ پاکستان اور کرغزستان نے تجارت، توانائی، مواصلات اور عوامی روابط کے شعبوں میں تعاون بڑھانے پر خصوصی توجہ دی ہے۔ دنیا کے بیشتر خطے آج علاقائی بلاکس کی قوت سے مستفید ہو رہے ہیں، عالمی معیشت میں وہی ممالک آگے بڑھ رہے ہیں جنھوں نے خطوں کے درمیان رسائی اور تجارت کو فروغ دینے پر سرمایہ کاری کی۔ یہی وجہ ہے کہ دونوں رہنماؤں نے دوطرفہ تجارت کو 2027 تا 2028 کے دوران 200 ملین ڈالر تک بڑھانے کا ہدف مقرر کیا ہے۔
یہ ہدف نہ صرف حقیقت پسندانہ ہے بلکہ دونوں ممالک کے لیے ایک ایسے معاشی سفر کا راستہ کھولتا ہے جو مستقبل میں اسے مزید وسعت دے سکتا ہے۔ اس ملاقات کے دوران ہونے والے معاہدات اور مفاہمتی یاد داشتوں کا عملی نفاذ اس ہدف کے حصول کے لیے بنیادی کردار ادا کرے گا۔ گزشتہ تجربات نے ثابت کیا ہے کہ پاکستان جب کسی ملک کے ساتھ تجارت اور سرمایہ کاری کے شعبے میں عملی پیش رفت دکھاتا ہے تو اس کے نتائج نہ صرف معاشی بلکہ سیاسی اور سفارتی سطح پر بھی نمایاں ہوتے ہیں۔
دونوں ممالک نے ان ایم او یوز کے ذریعے نہ صرف اقتصادی بلکہ سماجی اور ثقافتی تعاون کے نئے در وا کیے ہیں۔ خاص طور پر تعلیم اور سیاحت کے شعبوں میں تعاون کے وسیع امکانات موجود ہیں۔
کرغزستان پہلے ہی پاکستانی طلبہ کے لیے ایک قابلِ قبول تعلیمی مرکز ہے۔ وہاں اعلیٰ تعلیم کا معیار بہتر ہے اور اخراجات نسبتاً کم ہیں۔ اس شعبے میں مزید تعاون دونوں ممالک کے نوجوانوں کے درمیان روابط بڑھانے کا سبب بنے گا۔ اسی طرح کرغزستان کے قدرتی مناظر اور پاکستان کے تاریخی و ثقافتی مقامات دونوں ممالک کو ایک دوسرے کے لیے پُرکشش سیاحتی مقامات بناتے ہیں۔ سیاحت کے فروغ سے نہ صرف اقتصادی فوائد حاصل ہوں گے بلکہ عوامی روابط بھی مضبوط ہوں گے۔
پاکستان ایک ایسے دوراہے پر کھڑا ہے جہاں علاقائی تعاون اور اقتصادی شراکتیں اس کی معیشت کو نئی سمت دے سکتی ہیں۔ خاص طور پر وسطی ایشیائی ریاستیں، قازقستان، ازبکستان، ترکمانستان، تاجکستان اور کرغزستان، پاکستان کے لیے نہایت اہمیت رکھتی ہیں۔
ان ممالک کے ساتھ تجارتی و اقتصادی تعلقات مضبوط کرنا پاکستان کے مستقبل کے لیے نہ صرف فائدہ مند ہے بلکہ قومی ترقی کی رفتار بڑھانے کے لیے بھی ضروری ہے۔ گزشتہ چند برسوں میں پاکستان نے ان ممالک کے ساتھ تجارت بڑھانے، توانائی معاہدوں پر دستخط کرنے، ٹرانسپورٹ راہداریوں کو فعال بنانے اور ثقافتی تعاون کو فروغ دینے پر خصوصی توجہ دی ہے، اور اس کے فوائد اب نمایاں ہونا شروع ہو گئے ہیں۔
وسطی ایشیا کا خطہ قدرتی وسائل سے مالا مال ہے۔ قازقستان دنیا کے بڑے تیل اور یورینیم پیدا کرنے والے ممالک میں شامل ہے۔ ترکمانستان قدرتی گیس کے ذخائر کے لحاظ سے دنیا کے نمایاں ملکوں میں شمار ہوتا ہے۔ ازبکستان بھی گیس،کاٹن اور معدنی وسائل کا حامل ملک ہے جب کہ تاجکستان اورکرغزستان ہائیڈرو پاور سے مالا مال ہیں۔ پاکستان کے لیے یہ تمام ریاستیں توانائی کے متبادل ذرایع فراہم کر سکتی ہیں جس کی ملکی صنعت کو شدید ضرورت ہے۔ پاکستان میں توانائی کی قلت اور مہنگی درآمدات نے معاشی بوجھ بڑھا رکھا ہے، ایسے میں ترکمانستان کے ساتھ گیس پائپ لائن منصوبہ TAPI اور تاجکستان و کرغزستان کے ساتھ CASA-1000 جیسا بجلی فراہم کرنے والا منصوبہ پاکستان کی توانائی ضروریات پوری کرنے میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔
تجارت کے حوالے سے پاکستان کو ان ریاستوں میں بڑی منڈیوں تک رسائی حاصل ہو سکتی ہے۔ ازبکستان اور قازقستان کو پاکستانی ٹیکسٹائل، ادویات، سرجیکل آلات، کھیلوں کا سامان، چاول اور سبزیاں بڑی مقدار میں برآمد کی جا سکتی ہیں۔ ترکمانستان اور کرغزستان میں تعمیراتی سامان، کیمیکل مصنوعات، فینشڈ گڈز اور زرعی آلات کی طلب بڑھ رہی ہے۔ پاکستان اپنے صنعتی شعبے کو بحال کرنے اور برآمدات بڑھانے کے لیے ان منڈیوں کو بہترین مواقع کے طور پر استعمال کر سکتا ہے۔
ان ممالک میں بھارت، ترکیہ اور چین پہلے ہی اثر و رسوخ رکھتے ہیں، ایسے میں پاکستان کے پاس یہ موقع موجود ہے کہ وہ اپنی ثقافتی اور مذہبی قربت کی بنیاد پر ایک منفرد ساکھ قائم کرے۔وسطی ایشیا کی سمندر تک براہِ راست رسائی نہ ہونے کی وجہ سے یہ ممالک تجارت کے لیے پاکستان کی بندرگاہوں، گوادر اور کراچی کو استعمال کرنے میں گہری دلچسپی رکھتے ہیں۔
یہ پاکستان کو ٹرانزٹ ٹریڈ حب میں تبدیل کر سکتا ہے۔ چین پاکستان اقتصادی راہداری (CPEC) کا مغربی روٹ وسطی ایشیائی ریاستوں کے لیے سمندر تک مختصر ترین راستہ فراہم کرتا ہے۔ اگر پاکستان اپنی سڑکوں، ریل اور لاجسٹکس کے نظام کو بہتر بنا لے تو وہ سالانہ اربوں ڈالر صرف ٹرانزٹ فیس اور ٹرانسپورٹ سروسز سے کما سکتا ہے۔ اس کے ساتھ روزگار کے ہزاروں مواقع بھی پیدا ہوں گے۔
اقتصادی تعلقات بڑھنے سے خطے میں امن و استحکام بھی فروغ پاتا ہے۔ تاجکستان اورکرغزستان جیسے ممالک افغانستان کے راستے پاکستان کے ساتھ تجارت بڑھانا چاہتے ہیں، جب کہ قازقستان اور ترکمانستان بھی پاکستان کے ساتھ مشترکہ تجارتی مفادات رکھتے ہیں۔ افغانستان پاکستان اور وسطی ایشیا کے درمیان پل کا کردار ادا کرتا ہے، اس لیے علاقائی امن خود بخود اقتصادی تعاون کا ضامن بن جاتا ہے۔ پاکستانی سیاحت، مذہبی اور تاریخی ٹورازم کے میدان میں بھی وسطی ایشیائی سیاحوں کو اپنی طرف راغب کر سکتا ہے۔
تعلیم اور تحقیق کے میدان میں بھی تعاون کے وسیع مواقع موجود ہیں۔ پاکستان کی یونیورسٹیاں میڈیکل، انجینئرنگ اور آئی ٹی میں وسطی ایشیائی طلبہ کے لیے پرکشش ہیں، جب کہ ازبکستان، قازقستان اور تاجکستان ریسرچ اور سائنسی شعبوں میں پاکستان کے ساتھ مشترکہ منصوبے شروع کر سکتے ہیں۔ یہ تعاون مستقبل میں ٹیکنالوجی، زراعت، صنعت و تجارت کے شعبوں میں جدید ترقی کا سبب بن سکتا ہے۔وسطی ایشیائی ریاستوں کے ساتھ پاکستان کے تعلقات مضبوط ہونے سے نہ صرف تجارتی حجم بڑھے گا بلکہ سیاسی اثر و رسوخ میں بھی اضافہ ہوگا۔
پاکستان پہلے ہی شنگھائی تعاون تنظیم (SCO) کا اہم رکن ہے، اور اگر وہ قازقستان، ازبکستان اور ترکمانستان کے ساتھ مضبوط اقتصادی شراکت قائم کر لے تو خطے میں اس کی پوزیشن اور زیادہ مستحکم ہو جائے گی۔ اس کے ساتھ ترکیہ، ایران، چین اور روس جیسے ممالک کے درمیان ایک توازن قائم کرنے میں بھی پاکستان کو مدد ملے گی۔پاکستان کے لیے ضروری ہے کہ وہ ان مواقع سے فائدہ اٹھانے کے لیے اپنی پالیسیوں کو مؤثر بنائے۔ سفارتی سطح پر سرگرم کردار، ٹرانسپورٹ اور توانائی کے منصوبوں کی تکمیل، سرمایہ کاروں کے لیے سازگار ماحول، کسٹمز سسٹم میں اصلاحات، اور کاروباری طبقے کو سہولتیں فراہم کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے۔
پاکستان اگر ان اقدامات کو عملی جامہ پہنا دے تو قازقستان، ازبکستان، ترکمانستان، تاجکستان اور کرغزستان کے ساتھ تجارتی تعاون کا نیا باب کھل سکتا ہے، جو نہ صرف معیشت کے لیے مفید ہوگا بلکہ علاقائی ترقی اور امن کے لیے بھی سنگ میل ثابت ہوگا۔ ان تمام حقائق کی روشنی میں یہ بات اعتماد سے کہی جا سکتی ہے کہ پاکستان اور کرغزستان کے درمیان یہ ملاقات صرف رسمی نوعیت کی نہیں بلکہ ایک جامع، حقیقت پسندانہ اور دور اندیشی پر مبنی سفارتی پیش رفت ہے۔
ہمیں امید رکھنی چاہیے کہ دونوں ممالک نہ صرف اپنے عزم کو عملی جامہ پہنائیں گے بلکہ علاقائی امن، معاشی استحکام اور مشترکہ خوشحالی کے لیے نئے اقدامات بھی سامنے لائیں گے۔ پاکستان کی جانب سے وسطی ایشیا کی ریاستوں کے ساتھ روابط کے فروغ کے لیے جو مثبت اقدامات کیے جا رہے ہیں وہ نہ صرف ملک کی اقتصادی ضروریات کو پورا کرنے میں مدد دیں گے بلکہ سیاست اور سفارت کے میدان میں بھی پاکستان کا کردار مزید مضبوط ہوگا۔ بلاشبہ پاکستان اور کرغزستان کے درمیان یہ بڑھتا ہوا تعاون دونوں ممالک کے بہتر مستقبل کی بنیاد بنے گا اور خطے میں پائیدار امن، خوشحالی اور ترقی کا نیا باب رقم کرے گا۔